خبرنامہ

پاکستان اورروس کے مابین 8 معاہدے،نئے دور کا آغاز !

پاکستان اور روس کے مابین دوطرفہ تجارت سمیت 8 اہم معاہدوں پر دستخط کر دئیے گئے۔پاکستان اور روس کے درمیان 9ویں بین الحکومتی کمیشن کا اجلاس ماسکو میں ہوا جس میں وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد لغاری وفد کے ہمراہ شریک ہوئے۔دونوں ممالک کے درمیان صنعتی شعبے کے علاوہ تجارتی و معاشی تعاون کے فروغ کے معاہدے طے پا گئے ہیں۔کامسیٹس اور پشاوریونیورسٹی کے روسی تعلیمی اداروں کے ساتھ معاہدے ہوئے جبکہ انسولین کی تیاری کے حوالے سے بھی دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ ہوا۔ نیشنل ووکیشنل ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کمیشن نے روسی یونیورسٹی کے ساتھ ایم اویو پر دستخط کئے ہیں۔
وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے واضح کیا ہے کہ روس سے خام تیل کی خریداری پر بات چیت ہوتی رہتی ہے اورجاری رہے گی۔ انہوں نے بتایا کہ روس کی آف شور تیل و گیس کی دریافت میں دلچسپی ہے،مصدق ملک مصدق ملک نے کہا کہ ہم نے قطر سے پانچ ایل این جی کارگو کو مﺅخر کروایا ہے، بات چیت جاری ہے تاکہ آئندہ سال بھی پانچ اضافی کارگو قطر سے نہ منگوائیں۔انہوں نے بتایا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیشن کے لیے فریم ورک بنایا جا رہا ہے جس سے قیمتوں میں کمی کا فوری فائدہ عوام تک پہنچے گا، ڈی ریگولیشن فریم ورک کی منظوری وزیراعظم دیں گے۔ اضافی سپلائی کے باعث ایل این جی کی قیمتیں انٹرنیشنل مارکیٹ میں کم ہوئی ہیں۔
ایران گیس پائپ لائن سے متعلق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن سے منصوبے پر رعایت لینے کی کوشش کریں گے، اگر ہمیں کسی بھی طرح رعایت مل جاتی ہے تو ہمارے لیے اچھا ہوگا۔مصدق ملک نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں پیٹرول پمپوں کی ڈیجیٹلائزیشن ہوجائے، اس سے شفافیت آئے کی اور اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہوگی، کیونکہ ریفائنریز سے ڈپو تک ڈیجیٹلائزیشن ہے،پمپوں تک نہیں ، کل لاگت کے حوالے سے مارجن میں اضافے کا فیصلہ نہیں کیاگیا۔انہوں نے کہا کہ کمپنیوں کے بورڈز میں تعیناتی کےلئے 40 لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے لیکن کسی بھی بورڈ میں سیاسی تعیناتیاں نہیں کی جائیں گی، وزیراعظم کی منظوری کے بعد بورڈ ممبران تعینات کر دئیے جائیں گے۔ بورڈز ممبران کے نام وزیر اعظم کو بھجوا دئیے ہیں، نامزد افراد سیکیورٹی کلیئرنس ہوتے ہی کمپنیوں کے بورڈز بن جائیں گے۔
ڈاکٹرمصدق ملک نے یہ بھی واضح کیا کہ روس کے ساتھ پہلے ڈیل چینی بینک کے ذریعے ہوئی تھی لہٰذا ہمیں ڈیل کے لیے نیا اسٹرکچر بنانا پڑے گا، روس سے خام تیل کی خریداری کا معاہدہ ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پی آر ایل اور سعودی کمپنی کا 1.7 ارب ڈالر کا معادہ طے پا گیا ہے۔ گرین فیلڈ ریفائنری منصوبے پر دوبارہ فیزیبلٹی رپورٹ جمع کرائیں گے، گرین فیلڈ ریفائنری منصوبے میں 8 سے 10 ارب کی سرمایہ کاری ہوگی۔
پاکستان اور روس کے مابین حالیہ پیش رفت اس بات کی غماض ہے کہ روس اور پاکستان کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں جو عملی اور باہمی ضروریات پر مبنی ہیں۔تاریخی طور پر ان دونوں ممالک کے تعلقات سرد جنگ کے زمانے میں سرد مہری کا شکار رہے جب دونوں ممالک اپنے اپنے اتحادوں کے ساتھ وابستہ تھے، تاہم اب عالمی جغرافیائی حالات میں تبدیلی آئی ہے اور اس کے ساتھ ہی ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان تعاون کی اسٹریٹجک اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔روس کے وزیراعظم کی دوماہ قبل اکتوبر میں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت اس تبدیلی کی ایک بڑی علامت تھی، اس کے علاوہ روسی فیڈریشن کونسل کی سپیکر ویلین ٹینا میٹویئنکو کا پاکستان کا دورہ اور پاکستان کے سینیٹ میں ان کا خطاب اس تعلقات میں ایک نیا موڑ ثابت ہوا ہے۔میٹویئنکو نے اپنے خطاب میں توانائی، تعلیم اور پارلیمانی تبادلوں سمیت کئی اہم شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا جو دونوں ممالک کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو گا، یہ بات واضح ہے کہ روس عام طور پر ایسے ممالک یا علاقائی معاملات میں دلچسپی نہیں لیتا جہاں ان کے مفادات شامل نہ ہوں۔
پاکستان کے ساتھ بڑھتا ہوا تعاون یہ ظاہر کرتا ہے کہ روس اس خطے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں واقعی دلچسپی رکھتا ہے، روس کا عمومی مزاج کم میل جول کا ہے اور اگر ان کی کوئی اسٹریٹجک یا اقتصادی دلچسپی نہ ہو تو وہ زیادہ روابط نہیں بڑھاتے، روس اور پاکستان کے درمیان حالیہ تعمیری شمولیت اس بات کا اشارہ ہے کہ روس اس خطے میں اپنا مقام مضبوط کرنے کے لیے پاکستان کو ایک اہم شراکت دار سمجھتا ہے۔اگر دونوں ممالک کے درمیان سفارتی معاملات کامیابی سے آگے بڑھتے ہیں تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ پاکستان آنے والے سالوں میں ایس سی او کے سربراہان مملکت کے اجلاس کے دوران صدر پیوٹن کی میزبانی کرے، روس اور پاکستان کے تعلقات کا مرکز انکے باہمی اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات ہیں۔ یوکرین جنگ کے بعد روس کی مغرب سے تعلقات میں خرابی اور اقتصادی پابندیوں نے ماسکو کو نئے تجارتی اور سیاسی اتحادیوں کی تلاش پر مجبور کیا، دوسری طرف پاکستان جو اپنی توانائی کی کمی اور اقتصادی چیلنجز سے دوچار ہے روس کے ساتھ تعاون میں دلچسپی رکھتا ہے، حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے اور روس نے جون 2023 میں پاکستان کو رعایتی تیل کی پہلی کھیپ بھیجی جس سے اقتصادی تعلقات میں مزید وسعت دیکھنے میں آئی۔
تاہم کچھ چیلنجز اب بھی موجود ہیں، جیسے کہ پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبہ جو 2015 میں طے پایا تھا لیکن ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا، اس کی وجہ روس پر عائد پابندیاں بھی ہو سکتیں ہیں، اس کے باوجود دونوں ممالک توانائی کے شعبے میں تعاون کے لیے پرعزم ہیں اور اس معاملے پر بات چیت جاری ہے، پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات اور روس کے پاس موجود قدرتی وسائل کے پیش نظر دونوں ممالک کے مفادات میں ہم آہنگی واضح ہے۔روس کا پاکستان کی جانب بڑھتا ہوا رجحان وسیع تر اسٹریٹجک مقاصد کی عکاسی کرتا ہے، روس نے جنوبی ایشیا میں پاکستان کو ایک اہم شراکت دار کے طور پر تسلیم کیا ہے، خاص طور پر اپنے”گلوبل ساﺅ تھ“کی پالیسی کے تناظر میں پاکستان کو اہم سمجھتا ہے۔
حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات کا دائرہ تجارت سے بڑھ کر دفاع، تعلیم اور کثیر الجہتی فورمز تک پھیل چکا ہے۔دونوں ممالک نے افغانستان میں استحکام کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیاہے، تعلیم اور پارلیمانی تعاون کو مزید فروغ دینے پر بھی زور دیا جس سے اس تعلقات کی مضبوطی کے مزید امکانات کھلتے ہیں۔دونوں ممالک کو درپیش بہت سے چیلنجز کے باوجود روس اور پاکستان کے تعلقات کی موجودہ سمت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دونوں ممالک کے اسٹریٹجک اور اقتصادی مفادات مشترکہ ہیں، حالیہ اعلیٰ سطحی ملاقاتیں، پارلیمانی تبادلے اور تعاون کے امکانات ایک نئے دور کا آغاز کر رہے ہیں جہاں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں تنوع لانے اور روس کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے کا موقع مل رہا ہے۔آنے والے کچھ مہینے اس تعلقات میں مزید مضبوطی اور مختلف شعبوں میں شراکت داری کے نئے مواقع لے کر آئیں گے جو علاقائی سفارت کاری اور عالمی اقتصادی حکمت عملیوں میں اہم مقام حاصل کر سکتے ہیں۔