اگر ہمارے ہاں ذرہ بھر جمہوری سول منتخب نظام رائج ہے تو پھر داخلی، قومی ،ملکی، سیکورٹی کانگران ا س ملک کا وفاقی وزیر داخلہ ہے یا صوبوں کے وزرائے داخلہ۔
ہم لاکھ کمیٹیاں بناتے رہیں ، مگر ان کی آئینی حیثیت کوئی نہیں ہو گی۔نیشنل سیکورٹی ایڈوائز کی صلاحیتوں میں کوئی شک نہیں مگر وہ وفاقی وزیر داخلہ کے متبادل نہیں ہو سکتے۔
پہلے تو مجھے وزیر اعظم کی چابک دستی کا اعتراف کرنا ہے، اب توواقعی لگتا ہے کہ وہ لندن کے ہسپتال سے ری چارج ہو کر آئے ہیں۔یہ صحت مندی ان کی ذات کے لیے تو مبارک ہے ہی، مگر ملک و قوم کے لئے بھی نیک فال کے مترادف ہے۔پچھلے ایک ہفتے میں وہ درجن بھر میٹنگیں بھگتا چکے ہیں اور یہ ساری کی ساری انتہائی اہم نوعیت کی تھیں جن میں تیزرفتار فیصلے کئے گئے۔ان اجلاسوں میں زیادہ تر ملکی سیکورٹی کے معاملات زیر بحث آئے جو کوئٹہ دہشت گردی کی وجہ سے پریشانی کا باعث بن گئے تھے۔
جب مسئلہ داخلی سلامتی کا ہوگا، تو لازمی طور پر وزیر اخلہ کواعتماد میں لے کر سارے فیصلے کئے جائیں گے۔ بعض حلقوں نے اعتراض کیا ہے کہ ان اجلاسوں میں وزیر دفاع کو نہیں بٹھایا گیا مگر یہ اعتراض بلا وجہ ہے، وزیر دفاع کا تعلق بیرونی جارحیت سے ہے، اندرونی دفاع، وزارت داخلہ کی ذمے داری ہے،اسی لئے تمام سول آرمڈ فورسز جن میں رینجرز، ایف سی ا ور اسکاؤٹ قابل ذکر ہیں ، وہ وزرات داخلہ کے تحت کام کرتے ہیں۔
زرداری دور میں بھی میں نے وزیر داخلہ کو اندرونی سلامتی کی جنگ کا سپاہ سالار لکھا تھا اور آج بھی میں اسی رائے پر قائم ہوں، بجا کہ ماضی میں جنرل کیانی یہ جنگ لڑنے میں پیش پیش تھے اور اب جنرل راحیل کا ڈنکا بج رہا ہے تو مجھے اس میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا، اگر ایک وزیر صحت کے دور میں کوئی سرجن اپنا نام پیدا کرتا ہے تو یہ اس کی اپنی محنت ، لیاقت ا ور صلاحیت کا کرشمہ ہے۔ اس سے وزیر صحت کی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا بلکہ یہ اس کی بھی نیک نامی ہے کہ اسے اچھے ڈاکٹر میسر آئے ہیں۔
میں اس خیال کا بھی حامی نہیں ہوں کہ وزیر داخلہ کسی بھی لحاظ سے وزیر اعظم کے لئے کوئی مسئلہ بنے ہوئے ہیں یا مستقبل میں بن سکتے ہیں۔ نواز شریف ا ور شہباز شریف سے ان کی جو قربت ہے ،ا سکی وجہ سے ان دونوں سے میرے اپنے تعلقات خراب ہوتے ہوتے رہ گئے۔ اپریل 1985 میں میاں نواز شریف نئے نئے وزیر اعلی پنجاب بنے ، میری ان سے کافی قربت تھی اور اس کی وجہ میری پیشہ ورانہ صحافتی ذمے داریاں تھیں ، حلف کے بعد میں ایک روز فون کر کے سات کلب روڈ گیا، میری میٹنگ کو دو منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ چودھری نثار وہاں آ دھمکے اور بڑی بے تکلفی سے ایک صوفے پر براجمان ہو گئے، ظاہر ہے ا س کے بعد میں وہاں سے چلتا بنا۔یہی کچھ آٹھ برس پہلے ہوا جب میں اسی کلب روڈ کے دفتر میں شہباز شریف کو ملنے گیا۔ کچھ وقت تو شعیب بن عزیز نے کھا لیا اور ابھی علیک سلیک شروع نہیں ہوئی تھی کہ پھر چودھری نثار فلمی ولن کی طرح وہاں آ کر بیٹھ گئے، شہباز صاحب نے ان سے میرا تعارف لرایا تو شاید چودھری نثار نے میرا دل رکھنے کے لئے کہا کہ ہاں ،میں ان کے کالم پڑھتا ہوں، بڑے اچھے ہوتے ہیں شہباز میاں نے ایک طنزیہ ققہقہ لگاتے ہوئے کہا، ہاں یہ اچھا ہی لکھتے ہیں مگر اکتوبر ننانوے کے بعد تو انہوں نے ہماری ایسی تیسی پھیر کر رکھ دی۔ اب پھر مجھے وہاں سے رخصت لیتے ہی بنی۔ چودھری نثار کو یہ دونوں واقعات یاد نہیں ہو ں گے مگر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ دونوں بھائیوں سے کس قدر قریب ہیں اور ان میں کس حد تک بے تکلفی ہے۔شاید وہ ان کے تیسرے بھائی تھے۔
چودھری نثار کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کم آمیز ہیں ، یہ کوئی برائی نہیں، صحافیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی وزیر کا دروازہ کھولیں اور اندر جا دھمکیں، اور ہر جائز ناجائز کام کی سفارش کریں یا اندر کی کہانیاں معلوم کریں۔ یہ ایک لحاظ سے قرب شاہی کی خواہش ہے جو کچھ صحافیوں کی توپوری ہو جاتی ہے اور باقی تنقیدا ور طنز کے نشتر چلاتے ہیں۔ابھی چند روز پہلے وزیرا عظم ہاؤس میں محترمہ مریم نواز کی میزبانی میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا گیا جس میں سناہے کہ ہمارے ایک صحافی دوست پرویز بشیر نے اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ شرکت کی۔یہ ان کے ذاتی تعلقات ہیں اور ایسا تعلق وقت کے ساتھ ہی بنتا ہے۔
چند روز پیشتر چودھری نثار نے چشم کشا انکشافات کئے۔ ان انکشافات کے بعد مجھے اپنی اس رائے پر نظر ثانی کرنا پڑی ہے کہ جنرل راحیل شریف نے حکومت سے بالابالا ضرب عضب شروع کر دی تھی، چودھری نثار کے بقول اس آپریشن کو شروع کرنے یا نہ کرنے کے لئے کئی اجلاس ہوئے اور پھر ایک حتمی تاریخ بھی مقرر کی گئی جسے افغانستان کے صدارتی الیکشن کی وجہ سے موخر کرنا پڑا۔ یہ بھی چودھری نثار ہی نے بتایا کہ طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ بھی فوج کو اعتماد میں لے کر شروع کیا گیا، اب تک عام لوگ یہی سمجھتے رہے ہیں کہ حکومت نے فوج کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ مذاکرات شروع کئے۔خود میں نے بھی یہی لکھا جس پر آج مجھے سخت ندامت ہے مگر میرا چودھری نثار سے یہ گلہ ہے کہ انہیں یہ حقائق ساتھ ساتھ ہی منظر عام پر لانا چاہئیں تھے تاکہ لوگوں کو حکومت ا ور فوج کے مابین اختلافات کی کہانیاں گھڑنے کاموقع نہ ملتا۔میں چودھری نثار سے یہ پوچھنے کی خواہش نہیں رکھتا کہ ایان علی اور بلاول کے ٹکٹ کس اکاؤنٹ سے خریدے جاتے ہیں اور کب سے خریدے جا رہے ہیں۔ظاہر ہے چودھری نثارا س ملک کے وزیر داخلہ ہیں ا ور ان کے ماتحت درجنوں انٹیلی جنس کے ادارے ہیں جن کا یہ روز مرہ کا کام ہے کہ وہ ا یان علی، بلاول یا میرے اور آپ کے مشاغل کی ٹوہ میں رہیں۔
ملک میں جاری دہشت گردی کو روکنے کی ذمے داری تنہا چودھری نثار پر عائد نہیں ہوتی، نہ افواج پاکستان پر ہوتی ہے، ملک کے مروج آئین کے مطابق تمام صوبے داخلی امور میں خود مختار ہیں ، وفاقی وزیر داخلہ کے ماتحت اس ملک کابہت چھوٹا سارقبہ آتا ہے جبکہ باقی سار ا کام صوبائی حکومتوں نے انجام دینا ہے، اس وقت جو آئین رضا ربانی نے ملک کو تحفے میں دیا ہے، وہ ایس ایم ظفر کے بقول ملک کو چار حصوں میں بانٹ چکا ہے۔اس آئین کے ذریعے وفاق پاکستان کی حفاظت کرنا ممکن نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ حقیقت اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کوکیوں معلوم نہیں یا اچکزئی کس برتے پر شور شرابہ مچاتے ہیں،اٹھارویں ترمیم پر اسی رضا ربانی کی پارٹی انیس سوستر میں تیار ہو جاتی تو یہ ملک دو لخت نہ ہوتا، شیخ مجیب اس سے بہت کم مانگ رہا تھا جو اٹھارویں ترمیم نے آج کے صوبوں کو دے دیا ہے، یہ صوبے نہیں ،راجدھانیاں ہیں ، ان کادل چاہے تو رینجرز کو اختیارات دیں یا نہ دیں ، ان کا دل نہ چاہے تو اپنے صوبے میں فوجی آپریشن کی اجازت دیں یا نہ دیں ، آئین کے تحت وہ ایسے فیصلے کرنے میں آزاد اور خود مختار ہیں۔
میں چودھری نثار کی جگہ ہوتا تو ایان علی اور بلاول کے ٹکٹوں کی رام کہانی چھیڑنے کے بجائے خورشید شاہ اور اچکزئی سے صاف صاف کہتا کہ بھلے آدمی، جاؤ اپنے اپنے صوبے کے وزیر اعلی یا وزیر داخلہ کا گریبان تار تار کرو۔