شاعر کو شکوہ تھا کہ حمیت نام تھا جس کا ،گئی تیمور کے گھر سے، مگر قلم کار کی فصل امید لہلاا ٹھی ہے، وطن عزیز کے ایک سپوت نے ثابت کیا ہے کہ حمیت اور غیرت اس قوم میں ابھی باقی ہے، توانا ہے، زندہ ہے۔
چودھری نثار بے باک گفتگو کی شہرت رکھتے ہیں ، سارک وزرائے داخلہ کانفرنس میں ان کی للکار دیدنی تھی۔
کوشش تو ہماری یہ ہے کہ غیرت کے خلاف قانون سازی کریں اور قوم کو بے غیرت اور بے حمیت بنا دیں مگر کہیں نہ کہیں سے پھر کوئی چنگاری روشن ہو جاتی ہے۔
چودھری نثار نے جو کہا ، سب کچھ آپ براہ راست سن چکے ا ور جو سننے کی تاب نہیں رکھتا تھا، وہ راہ فرار اختیار کر گیا، بھارتی لالہ لاجواب ہو کر واپس لوٹ گیا۔
بھارتی عوام نے یہ کہہ کر ان کا ستقبال کیا ہوگا کہ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔
چودھری نثار کی حق گوئی نے میرے مرشد مجید نظامی کی یاد تازہ کرد ی۔میں تو کہتا تھا کہ میرے مرشد حیات ہیں اور وہ کسی نہ کسی روپ میں اپنی موجودگی کااحساس دلاتے رہتے ہیں۔
اور مجھے یہ بھی یقین ہو گیا کہ شہید زندہ ہوتے ہیں۔ بھارتی فوج نے اپنے تئیں برہان وانی کی جوان آواز خاموش کر دی۔اس کے ولولوں اور جذبوں کو قبر میں اتار دیا،مگر چودھری نثار سارک کانفرنس میں بولے تو مجھے یوں لگا جیسے برہان وانی دنیا سے کہہ رہا ہو کہ بھارتی فوج کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کر رہی ہے، یہ بھی برہان وانی کا کہنا تھا کہ جدو جہد آزادی اور دہشت گردی کے فرق کو ملحوظ رکھا جائے۔برہان وانی نے بھی ظلم اور جبر کے خلاف زبان استعمال کی تھی، اس نے کبھی تلوار نہیں اٹھائی، اب چودھری نثار نے بھی زبان کا ہتھیا ر استعمال کیا اور دنیا کو باور کرایا کہ جس زبان میں بات کرو گے،اسی میں جواب سنو گے۔
پاکستان میں بدھ کا روز ایک ہنگامہ خیز دن تھا، پنجاب حکومت کایک ہیلی کاپٹر جو مرمت کے لیے روس جا رہا تھا،ا سے افغانستان مٰں اتار لیا گیا، اسے نذر آتش کر دیاگیا ورا سکے پورے عملے کو یر غمال بنالیا گیا، اسی روز وزیرا اعظم ا ور آرمی چیف کے مابین ایک ملاقات ہوئی تھی، کشمیر میں تیز ہوتی تحریک آزادی کے پس منظر میں یہ ملاقات انتہائی اہم تھی،اسی روز وزیر اعظم نے ایک سیاسی اجلاس میں شرکت کی جس میں خاص طور پر اسدالرحمن پھٹ پڑے، وہ جسٹس خلیل ارحمن رمدے کے بھائی ہیں۔ اسی دن امریکہ نے یہ کہہ کر پاکستان کی تیس کروڑ ڈالر کی امداد روک دی کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان کی ٹھوس کاروائیوں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ اور یہی وہ د ن ہے جب پاکستان نے آئی ایم ایف کو مستقبل کے لئے اورمستقل طور پر خدا حافظ کہہ دیا اورا س کا اعلان خود وزیر اعظم نے کیا۔مگر ان خبروں پر ایک خبر حاوی ہے اور وہ ہے مرد کہستانی، فرزند پوٹھو ہار، چودھری نثار کی بھارت کو للکار، جس پر دنیا نے دیکھا بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کا فرار۔
چودھری نثار اسی حکومت کے وزیر داخلہ ہیں جس کے وزیرا عظم نے اپنی نواسی کی شادی میں بھارتی مودی کو مدعو کیا تھا، جس نے یہ بھی کہا تھا کہ واہگہ کی لکیر کیوں ہے، ادھر بھی دال روٹی کھاتے ہیں، ادھر بھی یہی کھاتے ہیں، جس نے یہ بھی کہا کہ واہگہ پر تجارتی ٹرکوں کی دن رات طویل قطاریں دیکھنا چاہتا ہوں ، یہ سب ضرور کہا گیامگر اب وہی وزیر اعظم کشمیریوں پر بھارتی جبر کے خلاف سراپااحتجاج بنے ہوئے ہیں۔انہوں نے صاف کہا کہ کشمیر کاحل یو این کی قرادادوں میں مضمر ہے بھارتی سنگینوں کے ذریعے ممکن نہیں۔
اور چودھری نثار دو قدم آگے چلے گئے، انہوں نے بھارت کے چہرے سے نقاب اتار پھینکا ہے، اور ڈریکولا نما جمہوری سیکولر ریاست کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔
وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے پرانے دھونے دھو ڈالے ہیں۔انہوں نے بھارت دوستی کاتاثر ختم کر ڈالا ہے۔
پاکستان میں بعض جماعتیں سمجھتی ہیں کہ وہی کشمیریوں کی تنہا ہمدرد ہیں مگر کشمیر میں بھارتی فوج کے حالیہ تشدد کے بعد وزیر داخلہ نے جس طرح بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، اس سے کشمیریوں کو پیغام ملا ہے کہ پوری پاکستانی قوم ان کے دکھ درد کی گھڑی میں ساتھ کھڑی ہے۔ آزادکشمیر میں حالیہ انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو نے گلا پھاڑ کر نعرے لگائے تھے کہ مودی کا جو یار ہے، غدار ہے، غدار ہے مگر اب پاکستان میں مودی کی یاری نبھانے والا کوئی نہیں رہا، وزیر اعظم ا ور ان کے وزیر داخلہ نے مودی کی سفاکی کے خلاف بھر پور صدائے احتجاج بلند کی ہے۔
ایک بار ہمارے ایک وزیر اعظم خان لیاقت علی خان نے مکہ لہرایا تھاا ور بھارت کے ا وسان خطا کر ڈالے تھے، اب ہمارے ایک وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھارت کو وہ کھری کھری سنائی ہیں کہ بھارتی لالہ چوکڑی بھول گیا ہے۔
مجھے یہ تسلیم ہے کہ ہمیں یہ جرات کشمیریوں کے جذبہ حریت نے بخشی ہے۔حالیہ عید کے بعد سے کشمیر کے طول وعرض میں پہیہ جام ہے، درو دیوار پر پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہیں، بھارتی فوج گولیاں چلا رہی ہے ا ور کشمیری یہ گولیاں سینوں پر کھا رہے ہیں ا ور گر رہے ہیں مگر آگے بڑھ رہے ہیں۔بھارت نے ستم کا نیا ہتھیار بھی آزما کے دیکھ لیا ، وہ ایسے چھرے چلا رہی ہے جو نوجوانوں کے چہرے اور آنکھیں مسخ کر دیتے ہیں، مگر بھارتی فوج کو کیا معلوم کہ وہ جن نوجوانوں کو اندھا کر رہی ہے، ان کی آ نکھوں میں آزادی کے چراغ اور زیادہ روشن ہو جاتے ہیں ا ور انہیں اپنی منزل آزدی واضح تر اور قریب ترنظر آتی ہے۔
سلام کشمیریوں کے مچلتے جذبوں کو، سلام کشمیریوں کی پے در پے قربانیوں کو اور سلام چودھری نثار کو جس نے ان جذبوں اور انب قربانیوں کی لاج رکھی اور اپنے بے باک لہجے میں ان کا شاہنامہ لکھ ڈالا۔
پس نوشت: ہمارے ایک ایڈیٹر کو دکھ ہے کہ پاکستان کے ٹی وی چینلز نے راجناتھ سنگھ کی تقریر کا بلیک آؤٹ کیا، یہ ایڈیٹر ایک اخبار کے مالک ہیں ، اس تقریر کا متن بڑے شوق سے چھاپ سکتے ہیں ا ور پھر عوام کے رد عمل کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔