چیئر مین پی ٹی آئی کی مزید 5 مقدمات میں عبوری ضمانت مسترد
لاہور کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے جناح ہاو¿س پر حملے سمیت پانچ مقدمات میں عمران خان کی حاضری معافی کی درخواست مسترد اور عدم پیروی کی بنیاد پر عبوری ضمانتیں خارج کردیں۔ انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج اعجاز احمد بٹر نے سماعت کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے حاضری معافی کی درخواست پر دلائل کے لیے مہلت مانگتے ہوئے کہا کہ عدالت سے چاہوں گا کہ مزید ریکارڈ اکٹھے کرنے کی مہلت دی جائے تا کہ بہتر انداز میں دلائل دے سکوں۔ اگر آپ پھر بھی کہیں کہ دلائل دو، تو میں موجود ریکارڈ کے مطابق دلائل دے دوں گا۔ عدالت نے کہا کہ ہم چاہیں گے کہ آپ دلائل دیں۔ وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے بھی چیئرمین مین پی ٹی آئی کو کوئٹہ کیس میں 24اگست تک گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ سرکاری وکیل سے کہوں گا کہ میرے ساتھ پورے 50 اوور کا میچ کھلیں۔ وائٹ واش یا پھر بارش کی وجہ سے جیت کا کپ نہ اٹھائیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی تو عدالت پیش ہونا چاہتے ہیں، آپ پروڈکشن آرڈر جاری کردیں۔ آج میری ٹیم بھی پوری نہیں ہے۔ سپیشل پراسیکیوٹر فرہاد علی شاہ نے کہا کہ قانون کے خلاف تو عدالت فائدہ نہیں دے سکتی ، عدم پیروی پر اگر ضمانت خارج ہوتی ہے تو وہ درست ہے، جب ایک ملزم سزا یافتہ ہے تو پھر ضمانت کیسے چل سکتی ہے۔ مفروضے پر بات نہیں کی جا سکتی ہے۔ قانون کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ سزا یافتہ ملزم کو کیسے عدالت میں عبوری ضمانت پر بلایا جا سکتا ہے۔ وکلاءکے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا‘ بعدازاں ضمانت کی درخواستیں عدم پیروی پر خارج کرتے ہوئے حاضری معافی کی درخواست مسترد کردی۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اٹک سے اڈیالہ جیل منتقلی درخواست میں فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہاہے کہ مناسب آرڈر جاری کریں گے۔ عدالت نے استفسار کیاکہ درخواست گزار وکلاءکا کہنا تھا ٹرائل کورٹ نے اڈیالہ جیل بھیجا آپ نے اٹک بھیج دیا، اڈیالہ جیل سے اٹک جیل منتقلی کا فیصلہ کس کا تھا؟ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے پنجاب حکومت کی جانب سے اٹک جیل منتقلی کا لیٹر عدالت میں پیش کردیا، شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہمیں بھی لیٹر کی کاپی فراہم کی جائے، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے پنجاب حکومت کاخط پڑھتے ہوئے کہاکہ اٹک جیل منتقلی سے متعلق خط میں وجوہات کا ذکر موجود ہے، عدالت نے استفسار کیاکہ ایک چیز بتائیں کیا وکلاءملزموں سے نہیں مل سکتے؟، جس پر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ7 اگست کو ایک وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سے ملے، وکیل صاحب نے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے وکالت نامے دستخط کرائے، عدالت نے استفسار کیاکہ کیا صرف وکالت نامے دستخط کرانے کے لیے وکیل اپنے کلائنٹ سے جیل میں مل سکتا ہے ؟،اس طرح اجازت نہ دینا تو عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت میں آ جائے گا، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ سات اگست کو ہم نے ملنے کی اجازت دی آٹھ کو اور نو اگست کو یہ دیر سے پہنچے، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ صبح آٹھ بجے سے دو اور یہ تین بجے تک بھی ہو سکتی ہے کیا یہی ہے؟،اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ جی بالکل اسی طرح ہی ہے، بیرسٹر گوہر علی خان نے کہاکہ ہمارے 180 کیسز ہیں ہم نے چیئرمین پی ٹی آئی سے ایڈوائس لینا تھی، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر وکیل کسی اور کیس میں جانا چاہے تو طریقے سے ملاقات ہونی چاہیے پرچے نہ ہوں، شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ ہائیکورٹ ہے اگر کوئی یہاں غلط بیانی کرے گا تو اس کے اثرات ہوں گے، انہوں نے کہا میں ساڑھے چار کل وہاں پہنچا آج یہ یہاں ہر غلط بیانی کر رہے ہیں،پنجاب حکومت کا نمائندہ یہاں بیان حلفی دے دے کہ ہم کل ساڑھے چار پہنچے، چیف جسٹس نے کہاکہ میں اسی لئے اتنی تفصیلات میں جا رہا ہوں تاکہ آئندہ ایسا کچھ نہ ہو، شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقاتوں پر بھی تذلیل کی جا رہی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی ایک بڑی پارٹی کے لیڈر ہیں سابق وزیر اعظم ہیں اور ساتھ ہی سزا یافتہ ہیں،دونوں چیزوں کو آپ نے اکٹھے لیکر چلنا ہے جو حقوق چیئرمین پی ٹی آئی کے ہیں وہ انہیں ملنے، شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کو انکا اپنا ڈاکٹر چیک کر لے گا تو کیا ہو جائے گا؟، مجھے سمجھ نہیں آتی یہ اتنا تنگ کیوں کر رہے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ وکلا سے ملاقات کے حوالے سے کیا رولز ہیں؟، وکیل پنجاب حکومت نے بتایاکہ ملاقات کے اوقات میں وکیل کی ملاقات ہوسکتی ہے،شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم پر جو مقدمہ درج کیا گیا اس میں وقت وقوعہ ساڑھے آٹھ بجے درج ہے،میں ویڈیو پیش کردیتا ہوں جس میں دن ڈیڑھ بجے ہم نے جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں، عدالت نے استفسار کیاکہ اگر کوئی اپنے ذاتی معالج سے چیک اپ کرانا چاہیں تو اس کا کیا طریقہ کار ہے ؟،پنجاب حکومت کے وکیل متعلقہ رولز عدالت کے سامنے پڑھے، چیف جسٹس نے کہاکہ ملاقات اور سہولیات کا معاملہ ہے میں اس متعلق آرڈر کر دوں گا، وکیل پنجاب حکومت نے کہاکہ اگر عدالت ہفتے میں ایک یا دو دن رکھ دے اور وقت مقرر کر دے تو ٹھیک ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ایک دو لوگ بھی جا رہے ہیں تو پھر تو کوئی لاءاینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا نہیں ہوتی، وکیل شیر افضل مروت نے کہاکہ ساری زندگی ہم اڈیالہ جیل میں جاتے رہے اپنے کلائنٹس سے ملتے رہے، کل انہوں نے بشری بی بی کی ملاقات کرائی پھر مجھے کہا ایک دن میں ایک ملاقات ہو سکتی ہے،روزانہ سے لوگوں کو یہ گھروں سے اٹھا رہے ہیں آپ کے سافٹ الفاظ سے یہ سمجھنے والے نہیں،ہم قرآن پاک دینا چاہ رہے ہیں کتابیں دینا چاہ رہے ہیں یہ وہ بھی نہیں دینے دے رہے ہیں ، وکیل ہنجاب حکومت نے کہاکہ قرآن پاک بھی ہے جائے نماز بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس ہیں، بیرسٹر گوہر علی خان نے کہاکہ ہمارے پندرہ اگست کو کیسز ہیں اس کے علاو¿ہ بھی کیسز ہیں،اگر پولیس لائنز کو ہی سب جیل ڈیکلیئر کر دیں تو ویڈیو لنک کی سہولیات مل جائے گی، چیف جسٹس نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کی ملاقات اور سہولیات سے متعلق میں آرڈر کروں گا، چھوٹی چھوٹی چیزوں پر اس طرح کی شرائط عائد نہ کریں،میں نے کہا تھا کہ دو تین وکلاءملاقات کیلئے جایا کریں زیادہ نہیں،دو چار لوگوں سے کیا فرق پڑتا ہے سو پچاس جائیں تو پھر الگ بات ہے، وکیل پنجاب حکومت نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے ہم نے کھانے کے لیے الگ سے کک رکھا ہوا ہے الگ برتن رکھے ہوئے ہیں،ایک میڈیکل آفیسر اور ایک ڈی ایس پی کھانا چیک کرتا ہے پھر چیئرمین پی ٹی آئی کو کھانا دیا جاتا ہے ،چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پھر میں کہوں گا ماضی قریب میں ایک اور ہائی پروفائل قیدی تھی کیا ان کو یہ سہولت نہیں تھی؟،میں مناسب آرڈر کر دوں گا، دوران سماعت وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نعیم حیدر پنجوتھہ روسٹرم پر آ گئے اور کہاکہ میں چیئرمین پی ٹی آئی سے ملنے گیا جیل میں، وہاں سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے،میں جب مل کے آیا اور باہر میڈیا ٹاک کی اسکے بعد انھوں نے مجھے ٹارگٹ کیا، اسکے بعد مجھے مسلسل تنگ کر رہے ہیں کیونکہ میں نے جیل سہولیات سے متعلق میڈیا کو آگاہ کیا،چیف جسٹس نے کہاکہ ہفتے میں اگر دو تین بار ملنا ہو تو اس میں کیا مضائقہ ہے ،ایسا نہیں ہوتا پرچے ہوں وکیلوں پر،جو قید میں ہیں ان کے حقوق ہیں ان کا انکار تو نہیں کر سکتے، نعیم حیدر پنجوتھہ ایڈووکیٹ نے کہوکہ میں ڈپٹی سپریڈنٹ جیل کے دفتر میں ملا ہوں وہاں کوئی سیکورٹی کا مسلہ نہیں ،اس عدالت نے حفاظتی ضمانت مجھے دے رکھی ہے ان سے پوچھ لیں پھر بھی ہمیں گرفتار کریں گے،میں نے سات دن کی حفاظتی ضمانت دے رکھی ہے توہین عدالت کی درخواست دیکھ لوں گا، وکیل نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کی فیملی کی طرف سے یہ خطرہ ہے کہ ان کو زہر دیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ ڈاکٹر صاحب یہ یاد رکھیے گا چیئرمین پی ٹی آئی کی آپ کی حراست میں ہیں ذمہ داری جیل سپرنٹنڈنٹ پر ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق کی عدالت نے عدالتی حکم کے باوجود چیئرمین پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کی اجازت نہ دینے پرڈی پی او اٹک کے خلاف توہین عدالت درخواست میں ریمارکس دیے کہ مناسب آرڈر جاری کریں گے۔ شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہاکہ مائی لارڈ وہ ہو گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا،عدالتی آرڈر کے مطابق ہم گئے انہوں نے ہم پر ایف آئی آر کر دی،30 سال کی وکالت کے بعد سپاہیوں سے اس طرح لڑنا ہماری شان کے خلاف ہے، ہم پر الزام لگایا کہ ہم نے ان کے کپڑے پھاڑے ہیں، چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے شیر افضل مروت ایڈووکیٹ سے کہاکہ ویسے آپ دونوں میں سے کون یہ کر سکتا ہے؟، میں بار بار کہہ رہا ہوں وکلاء کو ملنے کی اجازت ہوتی ہے، شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں نے عبوری ضمانت کرا رکھی تھی اس کے باوجود اٹک پولیس نے مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کی، عدالتی آرڈرز کے باوجود ہمیں چیئرمین پی ٹی آئی سے نہیں ملنے نہیں دیا گیا، چیف جسٹس نے کہاکہ باقی کیسز کے ساتھ یہ کیس بھی سنتے ہیں۔