میں مایہ ناز سرجن ڈاکٹر محمود شوکت کا ممنون ہوں کہ انہوں نے میری تحریک اور خواہش کو عملی جامہ پہنا دیا ہے۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اپنے دادا ملک برکت علی کی تحریک پاکستان میں گراں قدر خدمات کے حوالے سے ایک انتہائی مستند کتاب مرتب کر کے نہ صرف اپنے جد امجد سے کما حقہ محبت کا حق ادا کردیا ہے بلکہ پاکستان کی نئی نسل پربھی بہت بڑا احسان کیا ہے۔
ملک برکت علی ہماری پارلیمانی تاریخ کے محسن ہیں۔ وہ 1936ءسے 1946ءتک آل انڈیا مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر مسلسل دس برسوں تک مسلمانانِ پنجاب کی ترجمانی کرتے رہے۔گو کہ پنجاب کے گلی کوچوں میں نعرے لگتے رہے ’بن کے رہے گا پاکستان،لے کر رہیں گے پاکستان‘، ’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااللہ‘ لیکن ان نعروں کو پارلیمانی تعبیر دینے والے ملک برکت علی تن تنہا انگریزوں، ہندوﺅں، سکھوں اور مسلمان ٹولیوں کے سامنے سینہ سپر رہے۔ میری شدید خواہش تھی کہ دس برسوں تک ملک برکت علی نے پنجاب اسمبلی کے ایوان میں جو مدلل اور دھواں دار تقریریں کیں، ان کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے اور انہیں آن لائن بھی اپ لوڈ کیا جائے تاکہ آج کی نسل جب تحریک پاکستان کے محرکات اور اس کی جاں گسل جدو جہد پر تحقیق کرے تو اسے یہ سارا مواد میسر آئے۔
ملک برکت علی آل انڈیا مسلم لیگ پنجاب کے صدر تھے اور ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی ان کے ساتھ جوائنٹ سیکرٹری کے طور پر قیامِ پاکستان کی جدو جہد میں مصروف تھے۔ ملک برکت علی کے پوتے ڈاکٹر محمود شوکت بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی سے ان کے گھریلو تعلقات تھے اور وہ جب بھی لندن سے آتے تو ہمارے گھر ہی قیام فرماتے۔ ملک برکت علی پر کتاب کی ترتیب و تالیف کے دوران ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کی ایک تحریرسامنے آئی جو انہوں نے ملک برکت علی کے انتقال کے فورا ًبعد لکھی۔ ڈاکٹرعاشق بٹالوی نے انکی وفات پر جو آرٹیکل لکھا ، وہ مسلم لیگ کے اس تنہا چمکنے والے ستارے کی کرنوں سے منور ہے۔میں ڈاکٹرعاشق حسین بٹالوی کے اس آرٹیکل سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔”جس محبِ گرامی و رفیقِ مکرم کا نام اس مضمون کا زیب عنوان ہے اور جس کی سوگوار یاد میں یہ چند سطور سپردِ قلم کی جا رہی ہیں ، وہ غالب کے ایک شعر کے مطابق اپنی زندگی کی حرارت کے لیے کسی اور نفس کے شعلے کا محتاج نہیں تھا۔ قدرت نے خود اسے آتشِ نفس بنا کر دنیا میں بھیجا تھا کہ اپنی گرمیِ گفتار اور پاکیزگی ِکردار سے مردہ دلوں کو زندہ اور افسردہ روحوں کو شگفتہ کرے۔ ملک برکت علی کی بے وقت اور ناگہانی موت کا حادثہ اتنا اچانک اور المناک تھا کہ یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ اگرچہ5اپریل 1946ءکی ایک شام کو خود ان ہاتھوں نے ان کا جنازہ اٹھایا اور غروبِ آفتاب کے وقت لاہور کے ایک قدیم قبرستان کے گوشے میں جہاں چند سال قبل ان کی رفیقِ زندگی کو سپردخاک کیا تھا، انہیں آغوشِ لحد میں سلا دیا۔ جس شخص کے ساتھ اس کی زندگی کے آخری لمحے تک دوستانہ اور نیازمندانہ مراسم رہے ہوں، جس کے ساتھ مسلسل دس برس سیاسی کام کرنے کا اتفاق ہوا ہو، جس کی صحبت میں رہ کر بے شمار علمی فوائد حاصل کیے ہوں اور جس کے ساتھ سالہا سال کی قربت ویکجائی نے ایسی یگانگت اور محبت پیدا کر دی ہو کہ اس کا غم اپنا غم اور اس کا آرام اپنا آرام بن گیا ہو، اس کے مرجانے کے بعد اس کے محاسن کو قلم بند کرنا آسان نہیں۔ ایک عقیدت مند کو اس کی سیرت کا ہر پہلو عظمتوں سے لبریز نظر آتا ہے۔
دنیا کا قاعدہ ہے کہ مرنے والے کی صرف نیکیاں یاد رہ جاتی ہیں اور عیوب سے چشم پوشی کی جاتی ہے لیکن ان سطور کو لکھنے والا ازراہِ تکلف نہیں بلکہ اظہارِ حقیقت کے طور پر یہ عرض کرنے کی جرات کرتا ہے کہ ملک صاحب مرحوم کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نظر نہیں آتا جو قابلِ گرفت ہو۔ وہ ایک بڑے آدمی تھے۔ ان میں ایک شاعر کے جذبات کی گرمی بھی تھی اور فلسفی کا تعقل اور فن کار کا وجدان بھی تھا۔ وہ بیک وقت ایک قانون دان، ایک ادیب، ایک سیاسی مفکر، ایک مصلحِ قوم اور ایک ماہرِ تعلیم تھے۔ خدا نے انہیں روشن دماغ اور روشن تر ضمیر عطا کیا تھا۔ ان کے دل و دماغ میں حیرت انگیز توازن تھا۔ پیہم غور و فکر اور کثرتِ مطالعہ نے ان کی طبیعت میں ایک خاص قسم کا ضبط پیدا کر دیا تھا جو جذبات کے دھارے کو بے راہ رو نہیں ہونے دیتا تھا۔ اس ضبط کی وجہ سے ان کے مزاج میں کبھی تندی پیدا نہیں ہوتی تھی۔ روزمرہ زندگی کے ایسے نازک مواقع پر جب معمولی اشتعال سے مزاج کے برہم ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ، وہ عموماً خاموش اور پر سکون رہتے تھے۔ مخالف کے حملہ کو نہایت حوصلہ سے برداشت کرتے تھے اور دوستوں کی مدح و ستائش سے ان کی طبیعت میں اور زیادہ انکسار پیدا ہو جاتا تھا۔
سیاسیات میں وہ شروع سے آزاد اور ترقی پسند رجحانات کے مالک تھے۔ 1915ءاور 1916ءمیں مسلم لیگ اور کانگریس کوایک دوسرے سے قریب لانے اور دونوں جماعتوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں ان کی کوششوں کابڑا دخل تھا۔ سر محمد شفیع مرحوم اس روش کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن قائداعظم کی قیادت میں میاں فضل حسین اور ملک برکت علی دو ایسے شخص تھے جو اس عقیدے کے پر جوش حامی تھے کہ بدیشی حکومت کے خلاف جنگ کرنے کے لیے مسلم لیگ اور کانگریس کا اتحاد ضروری ہے، چنانچہ 1916ءمیں مسلمانانِ پنجاب کی نمائندگی کرتے ہوئے ملک صاحب اور میاں فضل حسین نے معاہدہ لکھنو پر دستخط کیے تھے۔ 1921ءکی اصلاحات کے بعد جب میاں فضل حسین نے اس معاہدے پر عمل کیا اور سرکاری ملازمتوں اور حکومتِ خود اختیاری کے اداروں میں مسلمانوں کو چالیس فیصد نمائندگی دی تو ہندوﺅں نے ان کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ اس نازک وقت میں میاں صاحب کے ساتھیوں میں صرف ملک صاحب آگے بڑھے اور تقریر و تحریر سے ان کی مدد کی۔
میں نے برسوں پہلے ملک برکت علی کے بارے میں کالم لکھنے شروع کئے ، ان کے پوتے ڈاکٹر محمود شوکت کی صلاحیتوں کو بھی اپنے کالموں کے ذریعے اجاگر کیا۔ میں نے ملک برکت علی پر لکھی ہوئی کتاب کی ترتیب و تدوین میں ڈاکٹر محمود شوکت کا ہاتھ بٹایا۔ کتاب کی کمپوزنگ سے لے کر اس کے مسودہ کی تیاری کے تمام مراحل مکمل کروائے۔میں ڈاکٹر محمود شوکت کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے پیش لفظ میں میری ان کاوشوں کا ذکر کیا ہے۔
میں اپنے بھائیوں جیسے دوست جناب وحید رضا بھٹی مرحوم کی مغفرت کیلئے بھی دعاگو ہوں کہ انہوں نے اس دنیا ئے فانی سے جاتے جاتے اس کتاب کی نوک پلک درست کردی اور یہ شائع ہونے کے قابل ہو گئی۔