” کس کا دباؤ؟ “…. طارق چوہدری(سابق سینیٹر)
مارڈالے گی مجھے عافیتِ کنج چمن جوشِ پرواز کہاں جب کوئی صیاد نہ ہو
گذشتہ دنوں نامعلوم اور فرضی دباؤ کا سہارا لے کر پھر ایک مرتبہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے مہم چلائی گئی، لطف کی بات یہ ہے کہ مہم کے سرغنہ اور کارندے وہی لوگ ہیں جو عوامی رائے اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹا کرتے ہیں، لیکن غیر ملکی آقاؤں کے اشارے اور ذاتی مفاد کے لیے ایسے شوشے چھوڑنے سے باز نہیں رہتے اور حکومت کو ان فیصلوں کی ترغیب دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام لوگوں کی رائے 99فیصد اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف ہے، جن مسلمان ملکوں نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا اگر ان کے عوام کی رائے لی جائے تو یقینا 95فی صد عوامی رائے اسرائیل کے خلاف ہوگی۔ دنیا بھر میں اسرائیل کی نامقبولیت بلکہ حقارت کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی طرح عالمی ریفرنڈم ہو جائے تو 80فیصد ووٹ اسرائیل کے خلاف ہونگے بشمول اس پودے کے لگانے والے برطانیہ اور مسلسل سرپرستی کرنے والے امریکا میں بھی نتیجہ اس سے مختلف نہیں ہوگا، عالمی تناظر میں فیصلے کرتے وقت عرب حکمرانوں کی پیروی تباہی کا راستہ ہے، ان حکمرانوں نے دولت وثروت کے باوجود اپنی دفاع پر کوئی توجہ نہیں دی، ان کی اپنی دفاعی فوج نہ ہونے کے برابر اور ان کی تربیت ومہارت دنیا بھر پست ترین سطح پر ہے، وہ اسلحہ کی خریداری اور امریکہ کی معیشت کو چلانے کے لیے مہنگے ترین اسلحہ کے انبار خریدتے رہتے ہیں لیکن اس اسلحہ کو استعمال کرنے کی اہلیت ان کے ہاں سرے مفقود ہے، چنانچہ ان کے دفاع کا مکمل انحصار امریکی افواج پر ہے۔ وہی امریکہ جو ان کے دشمن اسرائیل کا سرپرست بھی ہے، وہ اسرائیل جو عربوں کا ازلی دشمن اور ان کے علاقے ہتھیانے کا مجرم ہے، جس نے فلسطین پر قبضہ کرکے وہاں کے باشندوں کو قتل، دربدر یا قید کررکھا ہے، یہ سب حکمران مظلوم کی آزادی کی جدوجہد تو کیا کرتے، ان مصیبت زدوں عورتوں اور بچوں کو پناہ دینے پر بھی تیار نہیں ہیں، جو اپنے عزیز بھائیوں اپنے ہم مذہب، ہم زبان کی مدد کرنے پر تیار نہیں، وہ پاکستان کی کیا مدد کرسکتے ہیں،خصوصاً ان حالات میں جب امریکہ ان پر دباؤ ڈالے گا۔
چھوٹے سے دشمن کے مقابلے میں ان کارکردگی پوری دنیا میں مسلم امہ کی تضحیک اور جگ ہنسائی کا باعث بنی رہی، عرب حکمرانی کے لیے اپنے عوام سے طاقت حاصل کرنے کی بجائے عالمی کوچہ گردوں کے سہاروں کی محتاج ہیں، اسلحہ کے انبار اپنے دشمنوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے اندر کسی ممکنہ بغاوت کو کچلنے کے لیے خریدے جاتے ہیں، فوج اور مسلح ملیشیا ذاتی اقتدار کے تحفظ کی حد تک ہے، وہ اپنی حقیقی دشمن اسرائیل کے مقابلے میں ترکی یا ایران کے فرضی خوف کی وجہ سے امریکی دباؤ میں ہیں۔ بائیس عرب ملکوں کے تقریباً 45کروڑ عوام،88لاکھ اسرائیلی یہودیوں سے خوفزدہ عرب حکمران اپنے عوام کی رائے سے ہم آہنگ ہوکر آزادانہ فیصلے کریں، اور اپنی ہمسایہ مسلم ریاستوں کو اعتماد میں لیں تو اسرائیل ایک ہفتہ بھی اپنی وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ بے شک امریکہ اپنی پوری طاقت سے اسرائیل کا ہم قدم ہوجائے، خصوصاً افغانستان میں رسوائی اور عراق سے پسپائی کے بعد امریکہ کی اپنی حالت پتلی ہے، تو اسرائیل اندر سے کس قدر خوفزدہ ہوگا، پاکستان میں جمہوری حکمران تو کیا فوجی ڈکٹیٹر بھی رائے عامہ کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ عمران خان خود ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ دباؤ، خوف اور لالچ میں کبھی درست فیصلے نہیں کیے جاسکتے، وہ دباؤ کا مقابلہ کرنے کی سکت اور حوصلہ رکھتے ہیں، ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی دباؤ سہنے اور برداشت کرنے میں بڑی مشاق ہے۔ پاکستان نے د نیا بھر کی چھوٹی بڑی مملکتوں کے مقابلے میں عالمی پابندیوں اور دباؤ کا پامردی سے مقابلہ کیا ہے، بڑی طاقتوں کے دباؤ کے دنوں میں پاکستان نے ہمیشہ غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔شروع دن سے اپنے قد اور استعداد سے بہت بڑے دشمن بھارت کے رعب میں آنے کی بجائے مقابلے کی ٹھانی، ابتدا میں مقابلے کرنے کے لیے اپنی دفاعی، معاشی، اقتصادی ترقی اور ضرورت کے لیے امریکی کیمپ میں شمولیت اختیار کی۔ ہرشعبے میں پاکستان کا پورا انحصار یورپ اور امریکہ پر تھا، اس کے باوجود ہماری حکومتوں نے نہ صرف چین کو تسلیم کیا بلکہ اس کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلقات استوار کیے حالانکہ چین اقوام متحدہ کا ممبر تھا نہ ہی دنیا کی اکثر ریاستیں اسے تسلیم کرنے کو تیار تھیں، امریکہ، روس اور ان کے اتحادی سب چین سے دشمنی رکھتے تھے، پاکستان نے چین کے لیے نہ صرف اپنے بلکہ دنیا بھر کے دروازے کھولنے میں مدد دی۔ امریکہ ویتنام سے جنگ میں الجھ گیا تو کیمونسٹ دنیا ویتنام کی پوری مدد کررہی تھی، اس تباہ کن خونی جنگ میں امریکہ کے اتحادیوں نے عملاً مدد کی۔ لیکن پاکستان نے نہ صرف فوجی تعاون سے انکار کیا بلکہ ایک ڈاکٹر اور دو نرسوں پر مشتمل میڈیکل مشن بھیجنے سے بھی انکار کردیا، اقوام متحدہ میں امریکہ کے مقابلے ویتنام سے فوجیں نکالنے کی قراردادوں کی حمایت کرتا رہا۔ حالانکہ ہماری سب ضرورتیں امریکہ اور اس کے اتحادی پوری کیا کرتے تھے، 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکہ نے دفاعی سازوسامان خصوصاً گولہ بارود کی ترسیل بند کی تو پاکستان نے ہاتھ پاؤں جوڑنے کی بجائے کمرِ ہمت باندھی اور چند برسوں میں گولہ بارود کی ضرورتوں میں خودکفیل ہوگیا، افغانستان سے روسی انخلاء کے بعد پاکستان کے خلاف انڈیا کی جارحیت کا خطرہ پیدا ہوا تو امریکہ ٹینکوں کے طے شدہ دفاعی معاہدے سے منحرف ہوگیا تو پاکستان نے چین کے تعاون سے ہیوی مکینیکل انڈسٹری میں اپنے ٹینک کی بنیاد رکھی اور چند برسوں میں ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں بنانا شروع کردیں۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد خطرہ محسوس کرتے ہوئے ہم نے فرانس سے ایٹمی ری پروسسنگ پلانٹ خریدنے کا معاہدہ کیا تو امریکہ نے فرانس پر دباؤ ڈال کر یہ معاہدہ منسوخ کرادیا تب حکومت نے ہر طرح کی پابندیوں اور حملوں کا خطرہ مول لے اپنا دفاعی ایٹمی پروگرام شروع کیااور 1984ء میں انڈیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ تباہ کن اور جدید ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کردیں، پیشگی ادائیگی کے باوجود ایف 16طیارے دینے سے انکار کیا تو مجبوراً چین کے تعاون جنگی طیارے بنانے کا فیصلہ ہوا تو آج پاکستان صف اول کے جنگی طیارے خود بنا رہا ہے، اور دوست ملکوں کو فروخت بھی کرتا ہے، ایٹمی ہتھیار لے جانے کے لیے ایف 16طیارے میں سہولت میسر نہیں تھی تب پاکستان نے اپنے طور پر ان جہازوں میں ایٹمی ہتھیار لے جانے کا نظام بنایا، اور دنیا کے جدید ترین میزائل بنانا بھی شروع کردیئے، پاکستان کے خلاف عناد بھرے امریکہ نے انڈیا کے ساتھ پیار کی پینگیں چڑھائیں اور پرامن ایٹمی پروگرام کے نام پر معاہدے کیے اور دنیا بھر کے ایٹمی سہولیات کے دروازے اس پر کھول دیئے جبکہ پاکستان پر سخت پابندیاں لگادی گئیں۔ مگر پچھلے ہفتے پاکستان نے دنیا میں بہترین ٹیکنالوجی کا حامل پہلا جوہری بجلی گھر تعمیر کرکے اس میں جوہری ایندھن بھرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ پاکستان امریکہ اور یورپی مخالفت کے باوجود پرامن جوہری میدان ہو، یا دفاعی ہتھیاروں کا معاملہ، اللہ کی مدد سے اپنے دشمنوں کے مقابلے میں عشروں کی سبقت رکھتا ہے۔ ہنستی آتی ہے ان بچاروں پر جو روس، امریکہ، یورپ اور ان کے اتحادیوں کا دباؤ حقارت سے ٹھکرا چکا ہے، اسے خوفزدہ، کانپتے اور کراہتے بے چاروں کے دباؤ سے ڈراتے ہیں۔
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث میں اگر آسانیاں ہوں، زندگی دشوار ہوجائے