خبرنامہ

کشمیر میں اب تک جو ہوا ، وہ بھارت نے کیا ۔۔۔اسداللہ غالب

ہفتے کی صبح کشمیر کی سورت حال پر غوروخوض کرتے ہوئے کسی کے سان گمان بھی نہ تھا کہ بھارت سٹپٹا کر کشمیر کا بدلہ بلوچستان میں اتارنے کی کوشش کرے گا، لیکن یہ بھارت کی سخت بھول ہے، کشمیر میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب کشمیری حریت پسندوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے، اس میں پاکستان کا دور دراز سے بھی کوئی ہاتھ نہیں۔
حافظ محمد سعید نے ایک اور نرالی بات کی تھی کی پچھلے انہتر برس میں کشمیر میں جوکچھ ہو رہا ہے، وہ بھارت کرر ہا ہے، پاکستان کی تو نہ کبھی کوئی کشمیر پالسیی تھی ، نہ اسوقت ہے۔اور پاکستان کی ا س سرد مہری کی وجہ سے خدشہ ہے کہ کشمیری کسی بھی وقت پاکستان سے بدک جائیں اور اپنا رستہ الگ کر لیں مگر ابھی یہ اسٹیج نہیں آئی، ابھی ا ن کی آس کی ڈوری پاکستان سے بندھی ہوئی ہے اور وہ ایک ہی پرچم بلند کر رہے ہیں ، پہلے یہ جھنڈے سری نگر تک محدود تھے، اب پلوامہ ا ور بڈ گام تک سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے۔
حافظ صاحب کا کہنا تھا کہ کشمیر پر پہلی جارحیت بھارت نے کی، اس کے بعد سے بھارت ہی وہاں دندنا رہا ہے۔وہ اپنی فوج میں بتدریج اضافہ کرتا رہا، آج آٹھ لاکھ فوج کشمیریوں کی گردن پر سوار ہے۔
یہاں لیفٹننٹ جنرل غلام مصطفی باجوہ نے وضاحت کی کہ پاکستان کی کل فوج سے یہ دو ڈویژن زیادہ ہے۔
حافظ صاحب نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بھارت ہی تھا جو سلامتی کونسل گیا،ا سنے اول ا ول اس کی قراددیں تسلیم کیں اور کشمیریوں کو خق خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا مگر پھراسنے اس وعدے کو پس پشت ڈال دیاا ور کشمیر کو ا س نے اپنا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا، یہ بھارت ہی تھا جس نے اکہتر م کے بعدپاکستان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شملہ معاہد ہ پر پاکستان سے دستخط کروائے اور بڑی عیاری سے سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن میں بدل دیا، اسی شملہ معاہدے میں اس نے پاکستان سے اقرار کروا لیا کہ آئندہ سے دونوں ملک باہمی تنازعات دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے ۔اس طرح سلامتی کونسل کی قراردادیں قصہ پارینہ بن کر رہ گئیں۔ پاکستان کے دباؤ پر کبھی بھارت کشمیر پر بات کرتا بھی تھا تو اس کا کہنا تھا کہ یہ بات چیت آزاد کشمیر کے مستقبل پرہو گی، مقبوضہ کشمیر پر ہر گز نہیں۔ واجپائی واہگہ بس کے ذریعے پاکستان پہنچے تو ہم نے بہت ڈھول پیٹا کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ ہو گیا ہے مگر بھارتی وزیر اعظم نے واپس پالم ایئر پورٹ پر پہلا قدم رکھتے ہی اعلان کیا کہ انہوں نے تو آزاد کشمیر کی واپسی پر بات کی ہے۔
یہاں حافظ سعید کی گفتگو کو ضیا شاہد صاحب نے بریک لگائی اور شملہ معاہدہ کا احوال بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ملاقات شملہ ہی میں بھٹو صاحب سے ہوئی تھی اور انہوں نے احتجاج کیا تھا کہ آپ نے اس قدر گر کر معاہدہ کیوں کیا۔بھٹو نے کہا کہ آج ہم مجبور ہیں ، ہمارے نوے ہزار افراد بھارت میں قید ہیں اور سینکڑوں مربع میل کا مغربی پاکستان کا علاقہ بھی بھارتی قبضے میں ہے، ایک بار ہم یہ مسائل حل کر لیں تو اس کاغذ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، پھر انہوں نے معاہدے کے کاغذ کو پھاڑ کر کہا کہ ہم اسے یوں پھاڑ دیں گے۔ کاغذ ی پرزوں کی حیثیت بھی کیا ہوتی ہے۔
اس سے مجھے صدر زرداری کا یہ قول یاد آیا کہ معاہدے قرآن حدیث کا درجہ نہیں رکھتے۔
مگر میں نے حافظ صاحب سے پوچھا کہ آپ واجپائی کی بس یاترا پر کوئی ا ور موقف رکھتے ہیں ، جبکہ تب ا ورآج کی حکومت کا موقف ہے کہ وہ تو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے قریب پہنچ گئے تھے ، مگر جنرل مشرف نے کارگل کر دیا۔ نواز شریف اس کو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔
حافظ محمد سعید نے وضاحت کی کہ وہ کارگل میں ایک مقام پر کھڑے تھے کہ پاکستانی فوج کے ایک کرنل نے انہیں بتایا کہ کل ا سی جگہ وزیر اعظم نواز شریف بھی کھڑے تھے۔ تو ا س سے چھر ا گھونپنے والا تاثر کہاں سے آ گیا، وہ تو کارگل کی جنگ میں ایک ساتھ تھے۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ کارگل پر بعد میں سیاست چمکانے کی کوشش کی گئی۔اور قوم میں انتشاراور اختلاف کو ابھارا گیا جو بالآخر فوج کے اندر بھی سرایت کر گیا۔
لیفٹننٹ جنرل غلام مصطفی نے اپنی گواہی پیش کی کہ کارگل دور میں وہ حاضر سروس میجر جنرل تھے ا ور اس طور پر وہ حافظ محمد سعید کے موقف کی مکمل تائید کرتے ہیں۔
حافظ محمدسعید نے کہا کہ ہم ماضی کو کریدنے کی بجائے آگے بڑھتے ہیں، ہمارے پاس ایک موقع تب تھاجب ہمارے مجاہدین نے سری نگر ایئر پورٹ پر قبضہ کر لیا تھا ور ایک موقع آج ہے جب پور اکشمیر جاگ رہاہے، قربانیاں دے رہا ہے، تیس روز گزر چکے ہیں کشمیر بند پڑا ہے، وہاں سخت کرفیو ہے، حریت قیادت کو بند کر دیا گیا ہے، جمعہ کی نمازتک کی ادائیگی کی اجازت نہیں، کرفیوں کی خلاف ورزی پر سیدھا فائر کھولا جاتا ہے ا ور ایسے چھرے استعما ل کئے جاتے ہیں جو نوجوان مردوں اور خواتین کی بینائی ضائع کر دیتے ہیں۔ان نوجوانوں کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں، وہ نہتے ہیں، انہیں اسلحہ چاہئے بھی نہیں مگر وہ اخلاقی مدد کے لئے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ کرفیو کی وجہ سے وادی کشمیر میں غذائی قلت واقع ہو چکی ہے، زخمیوں کے علاج معالجے کاکوئی انتظام نہیں، ادویہ کا قحط ہے ، پاکستان کو صرف ایک مدد کرنی چاہئے کہ چکوٹھی کے تجارتی بارڈر سے کشمیریوں کے لئے غذائی سامان اور ادویات کے ٹرکوں کے ٹرک بھیجے جائیں۔ اگر بھارت اس امدادی سامان کو روکے گا تو دنیا میں رسوائی اس کا مقدر ہو گی۔
حافظ محمدسعید نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس بلا کر اپنی کشمیر پالیسی کے خدو خال تو طے کرنے چاہیءں تاکہ بے چارے کشمیریوں کی بھر پور مددکاکوئی راستہ نکل آئے، جیسا کہ ضیا شاہد صاحب نے کہا ہے کہ بھٹو نے شملہ معاہدہ کو پھاڑنے کاعندیہ تھا، تو قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو اپنے لیڈر کے اس قول کو پورا کرناچاہئے ا ور قومی اسمبلی کے ایوان میں شملہ معاہدہ پھاڑ دینا چاہئے۔تمام ملکی سیاسی جماعتوں کومتحد ہو کر کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنی چاہئے، اگر بھارت کو اٹوٹ انگ کی گردان کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی تو ہمیں بھی کشمیر کو اپنی شہہ رگ کا راگ الاپنا شروع کرنا چاہئے ۔اقوام متحدہ کو جگانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنی قراردادوں پر عمل در آمد کرائے تاکہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع ملے۔دنیا کے سامنے بھارتی ریاستی دہشت گردی کا پردہ چاک کرنا چاہئے، بھارت ایک خونی بلا ہے جو انہتر برس سے کشمیریوں کا خون پی رہی ہے، صرف پچھلے تیس برس میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔
حافظ محمد سعید نے کہا کہاب ناؤ آر نیور والا مرحلہ ہے ۔ایک موقع ہاتھ آیا ہے،ا سے ضائع نہیں جانے دینا چاہئے۔ایک گولی چلائے بغیر ہم کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں۔
کشمیری زخمیوں کے علاج کے لئے وزیر اعظم اعلان کر چکے ہیں، ایک ا علان جنرل مشرف نے کیا تھا کہ پاکستان ان خواتین کی نفسیاتی بحالی میں مد دینے کے لئے تیار ہے جو بھارتی فوج کی اجتماعی آبرو ریزی کی وجہ سے ہوش و حواس کھو چکی ہیں، ان باتوں پر اب عمل بھی ہونا چاہئے۔
حافظ محمد سعید نے جو کچھ کہا ، یہ مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کا راستہ ہے، ان باتوں کی روشنی میں کوئی عقل کا اندھا ہی حافظ محمد سعید کو دہشت گرد کہہ سکتا ہے۔