خبرنامہ

کشمیر پر نجی اور سرکاری شعبے کا موقف…اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پلوامہ جیسا کوئی واقعہ کشمیر کے مسئلے کواجاگر کرنے کا باعث بنتا ہے ورنہ کشمیری نوجوان،مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے شہید ہوتے رہتے ہیں،ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اب پلوامہ کا بکھیڑا کب تک زیر بحث رہے گا، ا سکا کچھ اندازہ نہیں ۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ضرور ہیں کہ کیا اس بار پاک بھارت جنگ چھڑے گی۔ فوجی ترجمان کی بریفنگ میں دو بارہ پوچھا گیا کہ سرحد پار دشمن کی فوجی نقل و حرکت کیا ہے۔ اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا ۔ صرف یہ کہا گیا کہ بھارت نے کچھ کیا تو ہم جواب دینے کی پھر پور سکت رکھتے ہیں۔
پلوامہ پر نجی اور سرکاری شعبے نے کسی فوری رد عمل کاا ظہار نہیں کیا۔ حافظ سعید اور سراج الحق کی طرف سے کوئی بیان آیا ہو گا جسے ٹی وی چینل پر تو شاید نشر نہیں کیا گیا۔ اخبارات نے زیادہ تر دو کالمی سرخی جمائی ہو گی۔جب نجی شعبے نے دیکھا کہ حکومت اس پر مکمل خاموش ہے تو سب سہم گئے کہ کہیں ان کے منہ سے ایسی بات نہ نکل جائے جو حکومت کی کشمیر اور بھارت پالیسی کے منافی ہو اور جس سے پاک بھارت تعلقات خراب ہو جائیں۔ تیسرے دن کہیں وزیر اعظم نے ایک مختصر ساپالیسی بیان دیا۔ بھارت کو واضح دھمکی بھی دی مگر ان کی تقریر میں خاصی تشنگی تھی ۔لوگ تفصیل سے سننا چا ہتے تھے کہ پلوامہ میں کیا ہوا۔ کس نے کیاا ور آگے کیا ہو گا۔ شاید وزیر اعظم بھارت بیشنگ کے لئے تیار نہ تھے۔ وہ کرکٹ کے سپر اسٹار رہے ہیں ۔ا سلئے ان کے تعلقات سرحد پار بھی اہم شخصیات سے ہیں۔ وہ انہیں ناراض نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان سے زندگی بھر میل جول تو رہنا تھا۔اس پر فوجی ترجمان آگے آئے ، انہوں نے بھارت کا سارا کچاچٹھا کھولا او رد عمل وہی دیا جو وزیرا عظم دے چکے تھے۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی رد عمل ہو نہیں سکتا تھا۔
نجی شعبے میں کشمیر اور بھارت پر بات کرنے میں جماعت اسلامی، جماعت الدعوہ اور جیش محمد شامل ہیں۔ان میں سے بعض پر تو ترنت پابندی عا ئد کر دی گئی۔ ممکن ہے یہ پابندی گرے اور بلیک لسٹ کے ضمن میں ہو مگر ٹائمنگ ایسی تھی کہ یہ جماعتیں کشمیر پر زیادہ زور نہ دکھا سکیں۔ نہ ان کی زبانوں نے شعلے اگلے ۔ نہ انہوں نے جلسے جلو س منعقد کیے ۔ نہ کہیں دھرنا دیا جو کہ اب سیاست میں عام فیشن بن گیا ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز میں ان جماعتوں کے راہنماؤں کو کبھی بلایا ہی نہیں جاتا۔ اب کس نے بلانا تھا۔اس لئے کشمیرا ور بھارت پر حکومتی زبان میں بات کرنے کی کمی ٹی وی اینکروں نے خود ہی پوری کی۔ اس سے وہ ماحول پیدا نہیں ہوا جو پینسٹھ میں دیکھنے میں آیا تھا۔
کشمیر پر پہلا سرکاری موقف قائد اعظم کا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ ہے۔ انہوں نے تو فوج کو حکم دیا کہ وہ کشمیر سے بھارتی افواج کو نکال باہر کرے مگر آرمی چیف نے ان کا حکم ماننے سے صاف انکار کیا۔ اس پر کسی کو خیال آیا کہ قبائلی لشکر کو استعمال کیا جائے۔ جنرل اکبر رنگروٹ نے پلاننگ کی اور بھارت سے کشمیر کا چھوٹا سا حصہ آزاد کروایا مگر بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو فریاد لے کر سلامتی کونسل جا پہنچے جس نے سیز فائر کا حکم دے دیا۔ اس طرح کشمیر کا بڑا حصہ بھارت کے زیر تسلط چلا گیا۔
وزیر اعظم لیاقت علی خان نے بھارت کو ایک مکہ دکھایا تھا۔ اس وقت دونوں طرف لام بندی ہوئی تھی۔ میں دوسری تیسری جماعت کا طالب علم تھا۔ ہمارے کھیتوں اور باغات میں فوج نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے مگر کیوں۔ اس کی سمجھ نہ آئی تھی کہ آخر جھگڑا کیا ہوا۔ بعد میں بھی کبھی ا سکا سراغ لگانے کی زحمت نہیں کی۔
پینسٹھ میں جب میں گیارہویں جماعت میں داخلے کی کوشش کررہا تھا تو کسی سلسلے میں سیالکوٹ جانا ہوا اور چھاؤنی کے علاقے میں غیر معمولی نقل و حرکت دیکھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ پاکستان نے آپریشن جبرالٹر کے تحت کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے فوجی ایکشن کیا ہے۔ ہماری افواج جب خاصی اندر چلی گئیں تو ایک صبح لاہور میں گھن گرج سننے میں آئی۔ بھارت نے کشمیر میں شکست کا بدلہ لینے کے لئے بین الا قوامی بارڈر پر جارحیت کر دی تھی اور وی بھی کسی اعلان جنگ کے بغیر۔یہ جنگ سترہ دن چلی ۔ پھر وہی سیز فائر۔
آپریشن جبرالٹر کے سلسلے میں ایک خبر اڑی کہ یہ وزیر خارجہ بھٹو کی ا س یقین دہانی پر لانچ کیا گیا تھا کہ بھارت اس کے جواب میں بین الاقوامی سرحد پر جنگ نہیں چھیڑ سکتا اور آپریشن جبرالٹر صرف کشمیر کے متنازعہ علاقے تک محدود رہے گا۔ مگربھٹو کی یقین دہانی غلط ثابت ہوئی،اب یہ تو تحقیق نہیں کی گئی کہ بھٹو نے پاکستان کوایک جنگ میں جان بوجھ کر پھنسایا،یہی بھٹو جب پاکستانن دو لخت ہونے کے بعد حکمران بنے تو انہوں نے کہا کہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔ بھارت سے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیئے اسی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل رکھی۔ اور اگر بات کی جائے کہ ملک سے باہر فوجی طاقت کا استعمال صرف ریاستی ادارے کر سکتے ہیں یا غیر ریاستی تنظیمیں بھی یہ فریضہ ادا کر سکتی ہیں، تو بھٹو پہلے حکمران تھے جنہوں نے یہ تھیوری بدلی اور افغان جہادی لیڈروں کو پاکستان مدعو کیا اور انہیں پناہ گاہیں مہیا کیں۔یہ معلوم نہیں کہ بھٹو نے انہیں کہاں استعمال کرنا تھا کیونکہ سوویت روس نے افغانستان میں بھٹو کی پھانسی کے بعدجارحیت کی۔ اس وقت تک بھٹو کی دعوت پر پاکستان آنے والے افغان جہادی لیڈرا سقدر طاقتور اور مسلح ہو چکے تھے کہ جنرل ضیا نے آئی ایس آئی چیف کے ذریعے افغان جہاد شروع کیا۔ میں اب اس افغان جہاد کی تفصیل میں نہں جانا چاہتا مگر کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیا کا منصوبہ تھا کہ وہ افغان جہاد سے فارغ ہو کر ان مجاہدین کو کشمیر میں داخل کرنا چاہتا تھا۔ یہ سارے افغانوں کے لشکر تھے مگر افغان جہاد میں جیش محمد، حزب المجاہدین وغیرہ نے بھی حصہ لیا ۔ ا س دوران لشکر طیبہ بھی وجود میں آ چکا تھا۔ جنرل ضیا تو دنیا سے چلے گئے مگر کشمیر جہاد میں پاکستانی تنظیموں نے حصہ لیناشروع کر دیا تھا۔ اصولی طور پر یہ جنگ پاک فوج پر فرض تھی مگر آج کے دور میں پراسکی جنگوں کا رواج پڑ گیا ہے ۔کشمیر میں پاکستان کا جہاد کوئی خفیہ نہ تھا۔ پاکستانی نوجوان اپنی مرضی سے کشمیر جا رہے تھے اور ان میں سے جو شہید ہو جاتے ، ان کے جنازے قاضی حسین احمد اور حافظ سعید ان کے دیہات میں پڑھا کر آتے۔ نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے اس پرائیویٹ جہاد کا قصہ تما م کر دیا ، بعد میں بھارت کے شورو غوغا پر ان تنظیموں پر بھی پابندی لگتی رہی اور ان کے لیڈروں کو بھی نظر بند کیا جاتا رہا۔ بعض کو پابند سلاسل بھی کیا گیا۔ یہ صورت حال آج تک چلی آ رہی ہے۔ اب جو بھی جنگ ہوتی ہے۔وہ ہماری فوج خود لڑتی ہے جبکہ بھارت کی یہ پالیسی نہیں ہے اور وہ پاکستان میں پراکسی جنگیں لڑ رہا ہے اورنان اسٹیٹ ایکیٹرز کے ذریعے پاکستان میں خون کی ندیاں بہا رہا ہے۔
کشمیر کا قضیہ قائد اعظم کے دور کی طرح ہنوز حل طلب ہے ۔ اسے کس نے حل کرنا ہے۔ ہماری فوج نے کرنا ہے۔ ہماری جہادی تنضیموں نے یہ معرکہ سر کرنا ہے یا ہمارے فارن آفس نے مذاکرات سے اس کا کوئی حل نکالنا ہے۔ یہ کسی پر واضح نہیں، صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہمارے پاس ایٹم بم اور میزائل ہیں ،یہ صرف ہمارے دفاع کے لئے ہیں۔ ورنہ سیاچین کی جنگ انیس سو چوراسی سے جاری ہے۔ ہم نے ایٹمی اسلحہ اور میزائل استعمال نہیں کئے۔ کارگل میں بھی دونون ملک خوب لڑے لیکن ایٹمی ا سلحہ استعمال ہونے کی نوبت نہ آئی۔ لوگ بہر حال پوچجتے تھے کہ یہ جو ہر چوک میں چاغی اور میزائلوں کے ماڈل بنائے ہوئے ہیں،ان میں کب جان پڑ ے گی۔
کشمیر پر ایک نظریہ میرے مرشد محترم مجید نظامی کا بھی تھا،جب جنرل مشرف نے کشمیر جہاد کو دہشت گردی قرار دیا تھا تو مرشد نظامی نے بھری محفل میں مشرف سے کہا تھا کہ �آپ کشمیر سے غداری کریں گے تواس کرسی پر نہیں رہ سکیں گے۔ نظریہ پاکستان کی ایک نشست میں مرشد نظامی نے پیش کش کی کہ انہیں ایک یٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کی جموں میں بھارتی فوجی چھاؤنی پر داغ دیا جائے۔
میرا اپنا نظریہ کشمیر بھی یہی ہے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کشمیریوں کا لہو بہتا رہے اور ہم چپ سادھے بیٹھے رہیں اور یہ سمجھ لیں کہ ہمارا فرض ادا ہو گیا تو یہ اپنے آپ کو اور کشمیریوں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ میں چین کے ا س نقطہ نظر کو قابل عمل نہیں سمجھتا کہ جس طرح اس نے ہانگ کانگ کا پچا س برس تک صبر اور حوصلے سے انتظار کیا توہمیں بھی خاموشی سے انتظار کرنا چاہئے کسی روز کشمیر پکے پھل کی طرح ہماری جھولی میں گر پڑے گا۔ یہ نظریہ بھی خود فریبی پر مبنی ہے اور اور اگر ہم انظار میں بیٹھے رہے تو بھارت ہمیں آبی جارحیت کی مار دے کر ریگستان میں بد ل دے گا۔اس پر کل کے کالم میں بات کروں گا۔