خبرنامہ

یادوں کا سْرور،چوہدری محمد سرور….انداز جہاں….اسد اللہ غالب

چوہدری محمد سرور سیاست کے عالمی اْفق پر سورج کی طرح روشنیاں بکھیر رہے ہیں۔ آج بھی وہ اپنے کیریئر کے جو بن پر ہیں اور میں نہیں جانتا کہ ان کے مستقبل کے ارادے کیا ہیں اور منصوبہ بندی کیا ہے، بہرحال میں تو اپنے ذہن میں محفوظ پرانی یادوں کو کرید رہا ہوں۔ میری ان کی پہلی ملاقات 90ء کے عشرے میں برطانیہ کے شہر گلاسگو میں ہوئی تھی جہاں ان کا بہت بڑا بزنس تھا، وہ مجھے کشاں کشاں اپنی کیش اینڈ کیری میں لے گئے اور اندر ایک بہت وسیع ہال میں مجھے گھماتے رہے۔میں سربفلک شیلفوں کو دیکھ کر ان کے سامنے اپنے آپ کو بونا محسوس کر رہا تھا۔ چوہدری محمد سرور کا اعزاز صرف یہ نہیں ہے کہ وہ برطانیہ میں ایک بہت بڑے بزنس کے مالک تھے، دنیا میں اور بھی کئی پاکستانی اور غیر پاکستانی بہت بڑے بڑے بزنس کر رہے ہیں۔ گلاسگو میں ہی چوہدری محمد یعقوب نے یورپ کا سب سے بڑا کیش اینڈ کیری کھولا تھا جس کا افتتاح ملکہ برطانیہ نے کیا تھا مگرشائدہی چوہدری محمد یعقوب کے نام سے نئی نسل کے لوگ واقف ہوں۔
چوہدری سرور کو اللہ نے یہ عزت دی ، کہ وہ پہلی بار کسی غیر مسلم ملک میں ایک منتخب نمائندے کے طورپر اس کی پارلیمنٹ میں پہنچے۔یہ راستہ ان کے لیے گوجرانوالہ کے بشیر مان نے کھولا تھا ، جو ایک غیر مسلم ملک میں اور خاص طور پر برطانیہ میں سب سے پہلے پاکستانی کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ بشیر مان صاحب کی خبر برطانوی اخبارات نے پورے صفحے کوسیاہ کر کے لگائی تھی اور ایسے لگتا تھا جیسے برطانیہ کی سیاست میں کوئی زلزلہ برپاہو گیا ہو۔ مگر آپ اندازہ لگائیے کہ ایک مسلمان اور پاکستانی کے کونسلر منتخب ہونے پر جب برطانیہ عظمیٰ میں ایک قیامت کا ساماں تھا تو محمد سرور ان کی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوگئے۔یہ تو ان کے لیے اور بھی ہضم کرنا بہت مشکل تھا۔ محمد سرور نے ایک نئی روایت قائم کی، انہوں نے کہا کہ میں پارلیمنٹ کے رکن کے طور پرحلف کیلئے بائبل پر ہاتھ نہیں رکھوں گا بلکہ قرآن پہ ہاتھ رکھ کر حلف دونگا۔ اورانہیں اس امر کی اجازت مل گئی۔ یہ ایک اور ان کا اعزاز ہے کہ انہوں نے قرآن پاک کی عزت اور عظمت کودوبالا کیا۔ چوہدری سرور صاحب کے رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے فوری بعد ان کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں ، ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جوشخص اس سازش میں آلہ کار بنا، وہ ایک پاکستانی صحافی تھا جوبرطانوی جر یدے میں کام کر رہا تھا۔ ا س نے روزانہ من گھڑت رپورٹیں شائع کیں، اور کون سا ا لزام تھا جو اس نے پہلے پاکستانی نومنتخب ایم پی چوہدری محمد سرور پر نہیں لگایاتھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پورا برطانوی میڈیا ایم پی محمدسرور کے خون کا پیاسا تھااور ان کا یوں تعاقب کیا جاتا جیسے بھیڑئیے کسی ہرن کے پیچھے دوڑ رہے ہوں۔
وہ مجھے ایک روز گلاسگومیں اپنے وسیع گھر میں لے گئے، گاڑی سے اترتے ہی انہوں نے گردن نیچے کر لی۔ مجھے بھی کہنے لگے کہ تم بھی اپنا چہرہ چھپا لواور بتایا کہ یہ جتنے بھی درخت ہیں، ان کے اوپر برطانوی صحافی کیمرے لے کر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ میری اور مجھے ملنے والوں کی ایک ایک حرکت کی تصویر بنا کر اخبارات میں شائع کرتے ہیں۔ میں اس پر مسکرائے بغیرنہ رہ سکاکہ یہ کیسی صحافت ہے ؟ لیکن چوہدری محمد سرور اس صورتحال پر سخت پریشان تھے۔ چوہدری محمد سرور سمجھتے تھے کہ ان کا دامن صاف اور شفاف ہے،کیونکہ انہوں نے الیکشن میں کسی قسم کی کوئی دھاندلی نہیں کی تھی، کسی قاعدے قانون کو نہیں توڑاتھا،ان کے حلقے میں کوئی پاکستانی صحافی رہائش پذیر نہیں تھا، بلکہ سارے کے سارے ووٹر گورے تھے ، یہاں سے سیٹ جیتنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے پاکستانی صحافی اور اس کے اخبار کیخلاف عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ کر دیا۔ یہ مقدمہ چلا تو ہر روز برطانوی میڈیا نے ہیڈ لائنیں لگائیں اور اپنا بغض نکالنے کی کوشش کی۔ ان کا یہ بغض محض ایک فرد محمد سرورکے خلاف نہیں تھا بلکہ عالم اسلام اورہر مسلمان کے خلاف تھا۔ کوئی شخص بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اس مقدمے کا انجام کیا ہوگا، محمد سرور باعزت اور آبرو مندانہ طریقے سے بری کر دئیے جائیں گے یا ان کے خلاف کوئی فیصلہ آ جائے گا۔
گلاسگو کا شہر محمد سرور کے چاہنے والوں سے بھرا ہوا تھا۔ملک غلام ربانی، شوکت بٹ، سرفراز احمد، مقبول رسول سمیت متعدد دوستوں کے نام اب 35 سال کا طویل عرصہ گذرنے کے بعد میری یادوں سے محو ہوتے جارہے ہیں ،مگروہ سب کے سب چودھری سرور صاحب کے زبردست مداح ہیں ، وہ ہر وقت ان کا دفاع کرتے تھے۔ برطانوی پریس میں جو بھی الزامات سامنے آتے، ان کا دفاع کرنے کے لیے محمد سرور کے یہ قریبی احباب پیش پیش رہتے۔ سرفراز احمد کو جب پتہ چلا کہ میں قصور کے ایک نواحی گائوں ’’فتوحی والا ‘‘کا رہنے والا ہوں تو انہوں نے بتایا کہ وہ تو وہاں کے ایک ٹیچر سے قصور میں پڑھتے رہے ہیں۔میں نے کہاکہ آپ جن سے پڑھتے رہے ہیں ، وہ میرے بڑے بھائی ماسٹر محمد فاروق ہیں اور اب ان کی کمر کے مہرے ایک حادثے میں ٹوٹ گئے ہیں جس کے نتیجے میں وہ چارپائی پر پڑے ہوئے ہیں اور حرکت نہیں کر سکتے۔ سرفراز احمد کے ساتھ دوستی کا یہ رشتہ رفتہ رفتہ خاندان کی شکل اختیار کرتاگیا اور وہ میری خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔
ایک بار چوہدری سرورصاحب مجھے لے کر اپنے وسیع گھر میں داخل ہوئے تو مجھے اپنے ساتھ سیدھاکچن میں لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ان کی بیگم صاحبہ بھی آگئیں اور انہوں نے چپاتیاں بنانا شروع کردیں۔ گرما گرم دال کے ساتھ چھوٹی سی میز پہ ہم دو نوں بیٹھ گئے اور گرم گرم چپاتیوں کے مزے لینے لگے۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میرا بچپن لوٹ آیا ہو اور میں اپنے ضلع قصور کے گائوں فتوحی والا کے گھر میں ایک کچے چولہے پہ اپنی ماں کے ہاتھوں کی روٹیاں آلتی پالتی مار کر بیٹھا کھا رہا ہوں۔ مجھے محمد سرورکے گھر کا یہ ماحول بہت اچھا لگا۔ کیا سادگی تھی، کیا سادہ ماحول تھا۔ یہ ایک ارب پتی شخص تھا یا کھرب پتی ، میں اندازہ نہیں لگا سکا۔ کیونکہ وہ کسی قسم کے تعیش کا مظاہرہ نہیں کر رہا تھا۔
میں نے بھابھی سے پوچھا کہ آپ سرور صاحب کا مستقبل کیسا دیکھ رہی ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ خیر کرے گا۔ بیگم صاحبہ کے دل سے نکلی ہوئی دعا اللہ نے واقعی قبول کرلی… !