TLP، بحالی کا عمل شروع، پنجاب کابینہ نے کالعدم قرار دینے کی سفارش سرکلر سمری کے ذریعے واپس لے لی، عملدرآمد کیلئے وفاق کو بھیجی جائے گی
TLP بحالی کا عمل شروع ،پنجاب کابینہ نے کالعدم قرار دینے کی سفارش سرکلر سمری کے ذریعے واپس لے لی ، 18وزراء نے کالعدم کا فیصلہ واپس لینے کی حمایت کی، سمری عملدرآمد کیلئے وفاق کو بھیجی جائیگی،90کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول سے نکالنے، 100کارکنوں کی رہائی کا اعلان، دہشت گردی کے4مقدمات سے بھی نام نکالنے کا فیصلہ،وزیر داخلہ شیخ رشید کاکہناہےکہ سعد رضوی نے فرانسیسی سفیر کی بیدخلی کا مطالبہ کیا تھا،دوسری جانب سابق چیئرمین رویت ہلالکمیٹی مفتی منیب کا کہناہے کہ فرانسیسی سفیر کے معاملے میں پیچھے نہیں ہٹے، میڈیا رپورٹنگ غلط ہے، نورالحق قادری، شیخ رشید اور فواد چوہدری نےمعاملات بگاڑے، آرمی چیف کا رویہ مثبت ،احسن طریقے سے مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے۔تفصیلات کےمطابق ٹی ایل پی کی بحالی کیلئے کام شروع کر دیا گیا، تحریک لبیک کیساتھ کالعدم کا لفظ ہٹانے کی سمری وزیراعلیٰ پنجاب کو ارسال کی گئی جس کی پنجاب کابینہ نے ابتدائی طور پر منظوری دیدی جس کے بعد وفاق سے بحالی کی سفارش کی گئی ہے ،ذرائع محکمہ پنجاب کا کہنا ہے کہ 90افراد کے نام فورتھ شیڈول سے خارج اوردہشت گردی کے تحت درج 4مقدمات سے بھی نام خارج کرنے کی منظوری دیدی گئی ہے ، 18 وزرا کی اکثریت نے تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس لینے کی حمایت کی ۔کالعدم تنظیم سے معاہدے سے متعلق پنجاب کابینہ سب کمیٹی کا اجلاس سربراہی وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کی۔اجلاس میں کالعدم تنظیم سے متعلق اسٹیرنگ کمیٹی کے فیصلوں کاجائزہ لیا گیا ، راجہ بشارت کی سربراہی میں اجلاس میں پنجاب کابینہ کو تھرو سرکولیشن سمری پر منظوری لینے کا فیصلہ کیا گیا، پنجاب کابینہ کو تھرو سرکولیشن سمری ارسال کی گئی۔دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے ساتھ جب ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کی بات چیت ہوئی تو وہ فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے اور سفارتخانہ بند کرنے کے مطالبے پر قائم تھے،سعد رضوی کو آمادہ کیا گیا تھا کہ معاملہ پارلیمنٹ میں لائیں گے، اس پر انہوں نے دستخط بھی کیے جس پر وہ قائم ہیں۔شیخ رشید نے مزید کہا کہ انہیں نہیں پتا کس کی کس کے ساتھ کیا بات ہوئی، انہیں صرف یہ پتا ہےکہ عمران خان 5 سال پورے کریں گے۔دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملکی مفاد اور امن و استحکام کی خاطر حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان کردار ادا کرنے کی پیشکش قبول کی تھی،مذاکرات سے قبل حکومتی وزرا دھمکیاں دے رہے تھے کہ طاقت کا استعمال کیا جائے گا اور ان کا خاتمہ کر دیں گے، وہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری، وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ساتھ کسی صورت بیٹھنے کو تیار نہیں تھے،جنہوں نے معاملات بگاڑے، وعدوں سے انحراف کیا، ان کا کوئی اعتبار نہیں۔انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں بتایا کہ ’آرمی چیف کا رویہ مثبت تھا اور وہ مسئلے کو احسن طریقے سے حل کرنا چاہتے تھے،میں نے آرمی چیف سے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کو پیش نظر رکھنا چاہیے، جب لال مسجد کا آپریشن ہو رہا تھا تو رات 12 بجے تک تمام لبرلز حکومت کو ملامت کر رہے تھے کہ حکومت کی رٹ کہاں ہے، حکومت طاقت کیوں استعمال نہیں کر رہی، مگر جب آپریشن ہوا تو صبح یہی سب حکومت مخالف صف میں کھڑے تھے۔‘فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے کے مطالبے کے حوالے سے مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ ’ہم اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہو رہے بلکہ میڈیا اس حوالے سے ہماری باتوں کی غلط تشریح کر رہا ہے، فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے کا معاہدہ حکومت کی جانب سے کیا گیا تھا جس کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے ایک بار پھر تصادم ہوا، فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا معاملہ پارلیمان کے حوالے کر دیا ہے اور حکومت نے اس مطالبے کو تسلیم کیا ہے۔مفتی منیب نے مزید کہا کہ ’کسی پاکستانی کو غدار کہنا سب سے بڑی گالی ہے اور اسی وجہ سے فواد چوہدری کو کوئی پسند نہیں کرتا،حکومت میں ایک وزیر ایک بات کرتا ہے تو دوسرا وزیر دوسری بات کرتا ہے اگر حکومت کی کوئی پالیسی ہے تو جسے وہ ہضم نہیں ہو رہی اس کو چپ کرا دے۔ایک سوال کے جواب میں کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور کالعدم تحریک لبیک (ٹی ایل پی) کے درمیان سیاسی اتحاد کی باتیں چل رہی ہیں تو اس پر جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن الائنس کی باتیں کرنے والے اور ٹی ایل پی جانیں۔