خبرنامہ انٹرنیشنل

آسٹریلیا میں ریکارڈ توڑ گرمی، سیکڑوں کم یاب جانور ہلاک

آسٹریلیا میں ریکارڈ توڑ گرمی، سیکڑوں کم یاب جانور ہلاک

واشنگٹن(ملت آن لائن) سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سردی اور گرمی کی انتہا دراصل کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے کا شاخسانہ ہیں۔امریکی خبررساں ادارے کے مطابق شمالی امریکہ کے کئی علاقے عشروں کی شدید ترین سردی کی زد میں آئے اور ہفتوں تک درجہ حرارت صفر سے نیچے رہا اور برف باری کے کئی سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔ دوسری جانب براعظم آسٹریلیا میں شدید گرمی کی لہر سے سینکڑوں جانور ہلاک ہو گئے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سردی اور گرمی کی انتہائیں دراصل کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے کا شاخسانہ ہیں۔سڈنی کے مغربی مضافاتی علاقے کیمبل ٹاؤن میں درجہ حرارت 113 درجے فارن ہائیٹ تک پہنچ گیا جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ گرمی کی اس شدت سے درختوں پر بسیرا کرنے والے کئی جاندار بے ہوش اور ہلاک ہو کر نیچے گر پڑے۔براعظم آسٹریلیا میں ایک خاص قسم کی چمگاڈریں پائی جاتی ہیں جنہیں ’فلائنگ فاکس‘ یعنی اڑنے والی لومڑیاں کہا جاتا ہے۔ یہ چمگادڑیں اجتماعی شکل میں شاخوں سے لٹک جاتی ہیں جسے فلائنگ فاکس کی کالونی یا آبادی کہا جاتا ہے۔ان کالونیوں کی دیکھ بھال سے متعلق کیمبل ٹاؤن کی کیٹ ریان کہتی ہیں کہ گرمی کی شدت سے ہلاک ہو کر درختوں سے گرنے والی چمگادڑوں کی تعداد اگر ہزاروں میں نہیں ہے تو سیکڑوں میں ضرور ہے۔وہ کہتی ہیں کہ اصل میں ہوا یہ ہے کہ گرمی کی شدت سے ان کا دماغ ابل گیا۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنے ہوش و ہواس کھو بیٹھیں۔ اور ان میں سے کچھ گرمی کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئیں۔فلائنگ فاکس کا شمار آسٹریلیا کے ان جانوروں میں ہوتا ہے جن کی نسل کو بقا کے خطرے کا سامنا ہے۔ اور مقامی قوانین میں ان کی نسل بچانے کو ترجیح دی گئی ہے۔1939 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ سڈنی کے ایک اور مضافاتی علاقے پینریتھ میں درجہ حررات 117 درجے فارن ہائیٹ سے بڑھ گیا۔جنگلی حیات سے متعلق نیو ساؤتھ ویلز کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ گرمی کی شدت دے متاثر ہونے والی چمگادڑوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکن زیادہ سے زیادہ چند سو چمگادڑوں کی جانیں بچا سکتے ہیں جب کہ بہت سی مردہ چمگادڑیں درختوں کے نیچے زمین پر بکھری پڑی ہیں اور ہلاک ہونے والی چمگادڑوں کی ایک بڑی تعداد درختوں اور جھاڑیوں کی شاخوں میں الٹی ہوئی ہے۔عہدے داروں کا کہنا ہے کہ رضاکار چمگادڑوں تک مائع خوراک پہنچانے کے لیے ان تھک کوششیں کررہے ہیں لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ گرمی کی لہر اتنی شدید ہے کہ وہ بہت سی چمگادڑوں کو ہلاک ہونے سے بچا نہیں سکے۔