خبرنامہ انٹرنیشنل

ارض ِمشرقی پاکستان کے شہدا…..حافظ محمد سعید

مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور پاکستان سے محبت کرنے والوںکوپھانسیوں پر لٹکایا جانا‘ اس جنگ اور دشمنی کا تسلسل ہے جس کی ابتداجواہر لال نہرو اورگاندھی نے کی تھی۔تحریک پاکستان کے ایام میں ہی کانگریسی رہنمائوں نے کھلے اور صاف لفظوں میںاکھنڈ بھارت کے قیام کی راہ ہموار کرنے اور پاکستان کے خاتمہ تک طویل جنگ جاری رکھنے کا اعلان کر دیاتھا۔ چنانچہ بھارت کی سازشوں اور اپنوں کی غلطیوں کی وجہ سے 1971ء میںپاکستان دولخت ہو گیا۔مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانااندراگاندھی کے نزدیک ایک ایسی تاریخی کامیابی تھی جو مسلمانوں کے ہزار سالہ دور حکومت پر بھاری تھی۔اس کے بعد چاہئے تھا کہ بھارت باقی ماندہ پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیاں بند کردیتا اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو بھی ان کے حال پر چھوڑدیتا لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا ۔نہرو اور گاندھی کی پاکستان کے خلاف برپا کردہ جنگ آج بھی جاری ہے جبکہ بنگلہ دیش کی سرزمین بھی بھارتی سازشوں کی بدستور آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ عبدالقادر ملا،قمرالزمان،علی احسن مجاہد،صلاح الدین قادر،مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی اور پروفیسر غلام اعظم کا جیل میں انتقال…. یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نصف صدی قبل پاکستان کے لئے کلمہ خیر کہا اور مشکل ترین حالات میں بھی نظریہ پاکستان کا پرچم تھامے رکھا ۔ سچی بات یہ ہے کہ بھارت اور حسینہ واجد جماعت اسلامی اور بیگم خالدہ ضیا کی جماعت کی آڑ میں اسلام اور نظریہ پاکستان کونشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اس جنگ کا اگلا ٹارگٹ پاکستان ہے۔ حسینہ واجد یہ بات طے کر چکی ہے کہ بنگالی خواتین کی عصمت دری اور قتل عام کے جھوٹے واقعات کو بنیاد بنا کرپاک فوج پر مقدمات چلائے جائیں ، مجرم ثابت کرکے سزائیں سنائی جائیں اور انہیں علامتی پھانسیوں پرلٹکایا جائے گا۔یوں بھارت اور حسینہ واجد افواج پاکستان اور مملکت خداد پاکستان کو دنیا میں بے توقیر اور مجر م ثابت کرناچاہتے ہیں۔
ظلم کی داستانیں رقم کرنے، بیگناہوں کوموت کے گھاٹ اتارنے، اپنے ہی عوام سے جیلیں بھرنے،اپنی قوم کو دھوکہ دینے ،وطن سے غداری کرنے اوربھارت کے ساتھ وفاداری نبھانے میں شیخ مجیب الرحمن اپنی بیٹی سے بہت آگے تھے۔اگرچہ ہمارے کچھ علمی اور سیاسی حلقوں میں مشر قی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے شیخ مجیب کا کردار آج بھی متنازع سمجھاجاتا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ علیحدگی نہیں چاہتے تھے بلکہ ذوالفقار علی بھٹوکی ہٹ دھرمی،یحییٰ خان کی ناعاقبت اندیشی نے مجیب کو علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا ۔ بلاشبہ مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کی غلطیوں اوربنگالی مسلمانوں سے روارکھی جانے والی معاشی ناہمواریوں سے انکار ممکن نہیں اس ضمن میں یحییٰ خان کا کردار بھی قابل فخر نہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب جو حقائق و عوامل منظر عام پر آرہے ہیں وہ اس بات کی نشاندھی کر رہے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن بھارت کے ساتھ بہت پہلے سے اپنے دین ایمان اور ضمیر کا سودا کر چکے تھے۔اس کی گواہی حسینہ واجد نے 16نومبر2009ء کو برطانوی نشریاتی ادارے کو بحیثیت وزیر اعظم انٹرویو دیتے ہوئے ان الفاظ میں دی تھی ”اگر تلہ سازش کیس میں رہا ہونے کے بعدمیرے والد1969ء پاکستان سے برطانیہ پہنچے۔ برطانیہ میں وہ جہاں ٹھہرے وہاں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کے عہدیدار ان سے ملاقات کے لئے آتے‘ ان کی میزبانی کا فریضہ میں انجام دیتی ا ورپاکستان کو دولخت کرنے کے منصوبے پر مشاورت ہوتی۔‘‘اس طرح بھارت نے مجیب کے تعاون سے مشرقی پاکستان میں حالات خراب کرنے کی منصوبہ بندی کی۔بدقسمتی سے ہمارے اس وقت کے حکمران اور سیاستدان سنجیدگی ودوراندیشی کا مظا ہرہ کرسکے اور نہ حالات کی سنگینی کاادراک کر سکے اور اس حوالے سے جو امریکی دبائو تھا اسے بھی نہ سمجھ سکے اس طرح وہ غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے گئے ان غلطیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا نتیجتاً مشرقی پاکستان کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔
10اپریل 1971ء کو کلکتہ میںبنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے قیام کا اعلان ہوا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بھار تی فوج اور” را‘‘ نے مشرقی پاکستان کی سرحدوں سے متصل تخریب کاری کے تربیتی کیمپ قائم کر دیئے ۔مکتی باہنی کے ایجنٹ اور بھارتی فوجی یہاں سے تربیت حاصل کرکے مشرقی پاکستان جاتے اوروہاں پا ک فوج کی وردیاں پہن کر سویلین کا قتل عام کرتے۔ نامساعد حالات کے باوجود پاک فوج نے مکتی باہنی کی شرپسندی کچل دی تو22نومبر1970ء کو بھارت نے مشرقی پاکستان پر اعلانیہ حملہ کردیا 16دسمبر کو سقوط ڈھاکہ ہوا12جنوری 1972ء کو شیخ مجیب الرحمن وزیر اعظم بن گئے ۔
شیخ مجیب بنیادی طور پرظالم ،سفاک اور خود غرض انسان تھے انہوںنے بھارت کی خوشنودی اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ہزاروںانسان قتل کروادیئے اور 24فروری1975ء کو ایک حکم کے تحت عوامی لیگ کے سواتمام جماعتوں کو کالعدم قرادے دیا۔یہ وہ وقت تھا جب شیخ مجیب کی زبان سے نکلا ہوا ہر حرف ‘حرف ِ آخر سمجھا جاتا تھا۔ ان کی ذات اور بات سے اختلاف کا مطلب موت تھا۔ یہ بنگلہ دیشی مسلمانوں کے لئے بہت ہی مشکل وقت تھا۔ایک طرف مکتی باہنی مجیب باہنی کی غنڈہ گردی تھی اور دوسری طرف بھارتی فوج کی لوٹ مارتھی۔بنگلہ دیشی مسلمانوں کے بظاہر امداد اورآس کے سب راستے بند تھے۔پھر وہ کچھ ہوا جس کا دنیا تصور بھی نہ کرسکتی تھی۔اندرا گاندھی15اگست 1975ء کو اپنی راجدھانی کے لال قلعہ میں یوم آزادی کی تقریبات میں روسٹرم کے پیچھے کھڑی مسلح افواج کی پریڈ کی سلامی لے رہی تھیں، ان کے چہرے پر غرور وتمکنت اور فتح یابی کے تاثر ات نمایاں تھے۔اچانک ان کے مشیر”ــــــــا یل کے جھا‘‘آگے بڑھے ان کے کان میں سرگوشی کی جسے سنتے ہی نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی حواس باختہ ہو گئیں ،چکرا گئیں،دل پکڑ کر بیٹھ گئیں، چہرے سے غرور و تمکنت کے تاثرات یکلخت کا فور ہوگئے یہاں تک کہ پریڈ کی تقریبات اور خطاب ادھورا چھوڑ کر چلی گئیں۔یہ سرگوشی اندراگاندھی کی سماعت پر بم بن کر گری اور حواس مختل کرگئی۔ شیخ مجیب الرحمن کا قتل بھارت کے یوم آزادی کے دن ہوا۔ یہ چوٹ ایسی ناقابل برداشت تھی کہ اندرا گاندھی کی زندگی کا روگ بن گئی ۔‘‘
پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت امریکہ اور روس سمیت بہت سے ممالک کا کردار تھاجو اب طشت ازبام ہو چکا ہے لیکن شیخ مجیب الرحمن اور ان کے اہل خانہ کے قتل میں کسی بھی ملک کا کوئی حصہ وکردار نہ تھا بلکہ یہ بنگا لی مسلمانوں کا اپنا فیصلہ و عمل تھا۔یہ عمل اس ظلم کا ردعمل تھا جو بھارت اور بھارت نوازشیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کے مسلمانوں پر کیا۔آج حسینہ واجد ایک بار پھر ظلم وستم کا بازار گرم کر رہی ہیں اور ان کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن حسینہ واجدکو اپنے باپ اور اندرا گاندھی کا المناک انجام یاد رکھناچاہئے۔
مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے تقریباََ نصف صدی ہونے والی ہے۔ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھارت پاکستان کو متحد رکھنے کی کوشش کرنے والوں کو معاف کرنے اور بھولنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ لوگ آج بھی پاکستان کے ساتھ وفا کی سزا بھگت رہے،قیدو بند کو سنت ِیوسفی سمجھ رہے اور پاکستان کی خاطر پھانسی کے پھندوں کو جنت کی معراج سمجھ کر چوم رہے ہیں۔ایک المیہ سقوط ڈھاکہ کاتھااور دوسرا المیہ غازیان مشرقی پاکستان کی شہادتوں کا ہے۔ افسوس صد افسوس ہم سقوط مشرقی پاکستان کا المیہ بھی بھول گئے۔ ارضِ پاکستان کے جانثاروں اور وفا شعاروں کو بھی بھول گئے۔ہم اپنے حکمرانوں سے کہنا چاہیں گے کہ شیخ مجیب الرحمن نے بھی بھارت سے دوستی کی اور اس کااعتماد حاصل کرنے کے لئے سب کچھ قربان کردیا۔اس کے عوض اسے ملاکیا؟ہمیشہ کی رسوائی اور ذلت کی موت…. ہمارے حکمران بھی بھارت کے ساتھ رشتے استوار کرنے میں بے تاب و بے قرار ہوئے جارہے ہیں۔ انہیں سمجھ لینا چا ہئے کہ وہ سب کچھ گنوا کر بھی بھارت کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتے۔
جماعت اسلامی کی پھانسیوںپر ہماری حکومت کا رویہ بزدلانہ اور میڈیا کے بعض اداروں کا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے۔ضروری ہے کہ حکومت اور میڈیا اپنی ذمہ داری کماحقہ ادا کریں۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ پھانسیوں کا معاملہ او آئی سی، عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ میں اٹھا ئیں۔9اپریل 1974ء کا سہ فریقی معاہدہ دنیا کو دکھائیں،ا سلامی ممالک کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش پر دبائو بڑھائیں اور پھانسیاں رکوائیں۔پاکستا نی قوم ترکی کے صدر جناب طیب اردوعان کی شکر گزار ہے کہ جنہوں نے اہل پاکستان سے بڑھ کر حق ِ پاکستانیت ادا کیا ،بنگلہ دیشی سفیر کو اپنے ملک سے بے دخل کیا اور اپنے نشریاتی خطاب میں یورپ کو اس کے دہرے معیار پربجا طور پر آئینہ دکھایا ہے۔ یقینی بات ہے کہ اگر ہمارے حکمران بھی اسی طرح کی غیرت وحمیت کا مظاہرہ کریں توبنگلہ دیش میں ظلم و ستم کا سلسلہ بند ہو جائے اور مسئلہ کشمیر بھی حل ہو جائے۔