خبرنامہ انٹرنیشنل

افریقی ملک انگولا میں اسلام پر پابندی کے حوالے سے غلط خبریں ایک بار پھر گرم

لندن(ملت + آئی این پی)افریقی ملک انگولا میں اسلام پر پابندی کے حوالے سے غلط خبریں ایک بار پھر گرم ہوگئیں۔برطانوی میڈیاکے مطابق انگولا میں اسلام پر پابندی کے حوالے سے غلط خبریں ایک بار پھر گرم ہوگئی ہیں۔ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ آیا ان افواہوں کا تعلق امریکی صدارتی انتخاب سے تو نہیں۔اخبار فریڈم ڈیلی میں لکھا گیا ہے کہ اس وقت مسلمان پوری طرح پاگل ہو چکے ہیں۔لبرٹی از وائرل نامی ویب سائٹ پر لکھا گیاکہ انگولا کے حکام اسلام پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کے مطابق یہ کوئی مذہب نہیں بلکہ فرقہ ہے۔اسی اخبار نے اس کے بعد انگولا کے دارالحکومت کے قریبی علاقے زانگو میں ایک مسجد منہدم کیے جانے کی تفصیلات لکھیں۔ریگن کوالیشن ڈاٹ کام کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ جو کچھ افریقہ میں مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ کر رہے ہیں، وہی کچھ انگولا میں ہونے سے روکنے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔امیریکا فرسٹ پیٹریاٹ نامی ویب سائٹ کے مطابق اب تک 80 مساجد مسمار کی جا چکی ہیں اور امریکہ کو انگولا سے ایک یا دو چیزیں سیکھ لینی چاہییں۔لیوانڈا سے ملنے والے اس تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک مسجد اب بھی فعال ہے۔انگولا کے ایک مسلمان ایڈم کیمپس نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایاکہ درحقیقت یہاں مسلمان برادری میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔تاہم انھوں نے بتایا کہ چند برس قبل ان کی مسجد بند کر دی گئی تھی، جب کہ دوسری چند مساجد مسمار کی گئی تھیں۔اسلام پر پابندی عائد کیے جانے کی غلط فہمی یہیں سے پیدا ہوئی۔ ایڈم کے بقول یہ مساجد اس لیے مسمار کی گئی تھیں کیونکہ حکومت کا کہنا تھا کہ ان کی تعمیر کے لیے اجازت نہیں لی گئی تھی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام مساجد بند نہیں کی گئیں بلکہ وہ دوسری مساجد میں جاتے ہیں حالانکہ بعض لوگ بند کی گئی مساجد کے باہر ہی نماز ادا کرتے ہیں۔تین ماہ بعد وکلا کی مدد سے یہ تین منزلہ مسجد فعال کروا دی گئی۔