خبرنامہ انٹرنیشنل

امریکی و افغان فورسز کا داعش اور طالبان کے خلاف کارروائی تیز کرنے کا عزم

کابل/واشنگٹن (ملت آن لائن + آئی این پی) امریکہ کی فوج نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ افغان فورسز کے ساتھ مل کر رواں سال افغانستان سے شدت پسند گروپ داعش کو ختم اور طالبان عسکریت پسندوں کو محدود کر دے گی۔امریکی میڈیا کے مطابق یہ بات حال ہی میں ان شدت پسند گروپوں کے خلاف میدان جنگ میں ملنے والی کامیابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہی گئی۔نیوی کے کیپٹن بل سلوین نے کابل میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ننگر ہار اور کنڑ کے سرحدی صوبوں میں داعش کے گڑھ کے خلاف افغان فورسز کے آپریشن میں مدد کے لیے امریکہ کی فضائی کارروائیوں سے صرف مارچ میں داعش کے 200 شدت پسند ہلاک ہوئے۔سلوین نے بتایا کہ 2017 میں افغانستان میں داعش کو شکست دینا ایک ہدف ہے۔سلوین نے کہا کہ ایسی معلومات نہیں ملتیں کہ داعش افغانستان میں کسی اور جگہ موجود ہے۔مشرق وسطی میں سرگرم شدت پسند گروپ داعش نے دو سال قبل افغانستان اور پاکستان کے علاقوں میں داعش خراسان یا ‘آئی ایس۔کے’ کے نام سے اپنی انتہا پسند کارروائیاں شروع کی تھیں اور شورش کے شکار جنوبی ننگر ہار صوبے کے بعض علاقوں کو اپنا گڑھ بنا لیا۔تاہم سلوین نے کہا کہ افغان فورسز کی قیادت میں ہونے والی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے داعش کے زیر کنٹرول علاقے میں “دوتہائی” اور اس کے جنگجوں کی تعداد میں 50 فیصد کمی ہوئی ہے۔ان کا اندازہ ہے اب افغانستان میں داعش کے حامی آٹھ سو سے بھی کم ہیں اور انھیں فوجی دبا کا سامنا ہے۔امریکہ کی فوج کے ترجمان نے نیٹو مشن کے تحت افغانستان کی ڈیفنس فورسز (اے این ڈی ایس ) کو تریبت دینے اور انہیں ساز و سامان فراہم کرنے کی کوششوں کا ذکر کیا تاکہ وہ رواں سال طالبان کے خلاف موثر لڑائی لڑ سکیں۔سلوین نے کہا کہ حال میں نئے طیاروں کو شامل کرنے کی وجہ سے افغان فضائیہ کی صلاحیت بڑھ رہی ہے۔افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے صحافیوں کو بتایا کہ ‘خالد’ نام سے ایک نیا فوجی آپریشن ملک کے 34 میں سے 14 صوبوں میں شروع کر دیا گیا ہے جہاں جنگجوں کی کئی ماہ سے جاری کارروائیوں کی وجہ سے سکیورٹی کی صورت حال بگڑ گئی۔وزیری نیایک بار پھر روس، ایران اور پاکستان پر طالبان کے ساتھ رابطے رکھنے اور ان کی درپردہ حمایت کرنے کا الزام عائد کیا۔سلوین نے کہا کہ “افغانستان میں لڑائی میں مصالحت کروانے کے لیے مدد افغان حکومت کو ملنی چاہیئے۔ طالبان کی حمایت کرنا یا انھیں ملاقات کے لیے جگہ فراہم کرنا یا طالبان کو درپردہ طور جواز فراہم کرنا بالآخر مدد گار نہیں ہو گا۔ماسکو اور تہران نے طالبان کے ساتھ اپنے رابطوں کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے رابطوں کا مقصد محض طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔دوسری طرف پاکستانی عہدیدار اپنی سرزمین پر طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے کہتے آ رہے ہیں، تاہم کابل اور واشنگٹن اس موقف کو مسترد کرتے ہیں۔