خبرنامہ انٹرنیشنل

امن مذاکرات کی بحالی،افغان حکومت اور طالبان کے درمیان خفیہ رابطوں کا انکشاف

کابل/دوحہ/واشنگٹن/لندن (ملت + آئی این پی)افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کیلئے خفیہ رابطوں کا انکشاف ہوا ہے ۔امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان حالیہ دنوں میں دو ملاقاتیں ہوئی ہیں جن کا مقصد افغانستان میں امن مذاکرات کی بحالی ہے۔افغان اتحادی حکومت کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ یہ رابطے قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہوئے لیکن اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا گیا ہے ۔واضح رہے کہ قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر قائم ہے۔برطانوی اخبار ’’ گارڈین ‘‘نے اپنی ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ستمبر اور اکتوبر میں ہوئے، جن میں افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ معصوم ستنکزئی کی افغان طالبان کے راہنما ملا منان سے دو بدو بات ہوئی۔ملا منان طالبان کے مرحوم بانی راہنما ملا عمر کے بھائی ہیں۔ گارڈین نے نام ظاہر کیے بغیر طالبان عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ اس ملاقات میں ایک سینیئر امریکی سفارت بھی موجود تھا۔تاہم امریکی حکومت کی طرف سے اس دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے جب رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ جنگ سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث ہیں لیکن انھوں نے اخبار میں شائع ہونے والی خبر دیکھی ہے۔ذبیح اللہ مجاہد سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے سیاسی عہدیداروں سے اس بابت معلومات طلب کی ہیں جن کے ملنے پر ہی وہ اس بارے میں بتائیں گے۔طالبان اور افغان حکومت کے درمیان گزشتہ سال جولائی میں پاکستان میں بات چیت کا ابتدائی دور ہوا تھا لیکن پھر یہ اچانک یہ خبر سامنے آئی کہ طالبان کے امیر ملا عمر دو سال قبل انتقال کر چکے ہیں اس خبر کے بعد مذاکرات کا سلسلہ معطل ہو گیا تھا۔ملا عمر کے بعد طالبان کی قیادت سنبھالنے والے ملا اختر منصور رواں سال مئی میں پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے جس کے بعد افغان امن عمل کی بحالی کی امیدیں دم توڑ گئی تھیں۔نئے امیر ملا ہبت اللہ اخونزادہ کی زیر قیادت طالبان نے افغانستان میں تشدد پر مبنی اپنی کارروائیوں میں اضافہ کیا اور اس دوران افغان سکیورٹی فورسز کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا جب کہ طالبان نے مختلف علاقوں پر اپنا تسلط کرنے میں قابل ذکر حد تک کامیابی بھی حاصل کی۔حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی نے گلبدین حکمت یار کے عسکریت پسند گروپ حزب اسلامی سے امن معاہدہ کیا تھا جس کے تحت اس گروپ نے عسکریت پسندی ترک کرنے پر اتفاق کیا تھا اور اس کے عوض حکمت یار سمیت اس گروپ کے روپوش راہنما افغانستان واپس آکر قومی سیاسی دھارے کا حصہ بن سکیں گے۔رواں ماہ ہی برسلز میں ہونے والی کانفرنس کے دوران صدر اشرف غنی اپنے ملک میں تعمیر نو کے لیے 15 ارب ڈالر بین الاقوامی معاونت کے وعدے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن اس عمل کے شراکت داروں نے افغانستان میں مستقل استحکام کے لیے تنازع کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا تھا۔