خبرنامہ انٹرنیشنل

اٹارنی جنرل نے ٹرمپ کی صدارتی مہم کے دوران 2 بار روسی سفیر سے ملاقات کی تھی

واشنگٹن (ملت + آئی این پی)امریکی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اٹارنی جنرل جیف سیشنز نے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کے دوران دو بار روسی سفیر سے ملاقات کی تھی،اس وقت سینیٹر کے عہدے پر فائز جیف سیشنز نے جنوری میں اپنی تصدیقی سماعت کے وقت یہ تعلقات ظاہر نہیں کیے تھے۔تاہم انھوں نے اس پر بات پر زور دیا کہ ان کی مہم کے حوالے سے مسائل پر کسی روسی اہلکار سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔سینیئر ڈیموکریٹک رہنما نینسی پلوسی نے جیف سیشنز پر حلف اٹھانے کے بعد جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ملاقاتوں کی یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی نے گذشتہ برس کے صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت سے متعلق تفتیش کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔خفیہ معاملات سے متعلق کانگریسی پینل کے اراکین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ کمیٹی ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم اور روس کے درمیان کے مبینہ تعلقات کی تقتیش کرے گی۔ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان اس معاملے کی تفتیش کا مطالبہ کرتے رہے تھے لیکن ریپبلکن ارکان اس کے لیے اب تک رضامند نہیں تھے۔امریکی میڈیا کے بعض بڑے اداروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کے بعض اتحادی مسلسل روسی حکام کے ساتھ رابطے میں تھے۔امریکی انٹیلی جنس حکام نے بھی تسلیم کیا تھا کہ ان کے خیال میں روس نے انتخابات کو ٹرمپ کے حق میں کرنے کی کوشش کی۔لیکن وائٹ ہاس کا کہنا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران کوئی بھی نامناسب رویہ نہیں اپنایا گیا۔محکمہ انصاف کے مطابق انتخابی مہم کے دوران جیف سیشنز نے دوبار روسی سفارت کار سے بات چیت کی۔ ایک بار سیشن نے اس وقت دفتر میں ان سے ملاقات کی جب وہ سینیٹ میں آرمڈ سروس کمیٹی کے رکن تھے۔دوسری بار ان کی بات چیت اس وقت ہوئی جب دیگر ممالک کے سفارتکاروں کے ساتھ گروپ میٹنگ ہوئی تھی۔سرگئی کیزلیکے واشنگٹن میں سنہ 2008 سے روس کے سفارت کار ہیں۔ وائٹ ہاس نے ابھی تک اس تازہ معاملے پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔انٹیلی جنس کمیٹی میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیئر رکن چک شیف کا کہنا ہے کہ اگر یہ خبر درست ہے تو پھر مسٹر سیشنز کو اس معاملے میں ایف بی آئی جو تفتیش کر رہی ہے اس سے اپنے آپ کو فوری طور پر الگ کرلینا چاہیے۔امریکہ کے خفیہ ادارے ایف بی آئی اور سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی بھی امریکی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے معاملے کی چھان بین کر رہی ہیں۔امریکی کانگریس کی کمیٹی اس معاملے میں بعض خاص پہلوں کی تفتیش کرنے پر آمادہ ہوئی ہے۔اس کے تحت یہ پتہ کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ آخر کونسی روسی سائبر سرگرمیاں اور دوسرے اقدامات امریکی انتخابات اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کیے گئے تھے۔کیا روسی سرگرمیوں میں یہ بھی شامل تھا کہ روس کا کسی ایسے امریکی شخص سے رابطہ تھا جس کا تعلق امریکہ کی سیاسی مہم سے رہا ہوا۔آخر امریکی حکومت نے روس کی ان سرگرمیوں کے رد عمل میں کیا اقدامات کیے تھے اور مستقبل میں اس طرح کی مداخلت سے اپنے آپ اور اتحادیوں کو کیسے محفوظ کیا سکتا ہے۔آخر اس عمل میں کس حد تک خفیہ معلومات افشا ہوئی ہوں گی۔ اس تفتیش میں انہی اہم پہلوں کا جائزہ لیا جائے گا۔واضح رہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ روس نے صدارتی انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کو تقویت دینے کے لیے خفیہ طور پر کام کیا۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ‘وثوق سے’ کہہ سکتی ہیں کہ روس نے امریکہ کے حالیہ انتخاب میں ہیکنگ کی تھی۔لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انٹیلی جنس کے ان دعوں کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ عراق کے سابق صدر صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے۔لیکن اس حوالے سے ان پر کافی دبا رہا ہے۔ ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل مائیکل فلن نے امریکی پابندیوں کے بارے میں روسی حکام سے بات چیت کے الزامات کے بعد استعفی دے دیا تھا۔