خبرنامہ انٹرنیشنل

اپنے دوستوں کی لاشیں کھا کر زندہ رہا، فضائی مسافر کا اعتراف

اپنے دوستوں کی لاشیں کھا کر زندہ رہا، فضائی مسافر کا اعتراف
سان تیاگو:(ملت آن لائن) آج سے 45 برس قبل ایک فضائی حادثے کے بعد اپنے مردہ عزیزوں کا گوشت کھا کر خود کو زندہ رکھنے والے مسافر نے دوبارہ ان المناک واقعات کو یاد کیا ہے۔
13 اکتوبر 1972 کو نینڈو پیراڈو اپنے عزیزوں اور دیگر 44 مسافروں کے ساتھ یوراگوئے سے چلی جارہے تھے کہ ان کا جہاز حادثے کا شکار ہوکر اینڈس کی برفیلی پہاڑیوں پر گرگیا جہاں دور دور تک آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا، طیارے میں رگبی کھیل کی پوری ٹیم تھی اور ان کے اہلِ خانہ بھی تھے جو سان تیاگو میں ایک میچ کھیلنے جارہے تھے۔ پیڈرو نے اپنی کتاب ’زندہ‘ میں اس ہولناک واقعے کا مکمل احوال پیش کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس حادثے میں 29 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ 15 افراد بچ گئے، بچ جانے والے لوگوں کے پاس کھانا ختم ہوگیا اور مسلسل 72 روز تک وہ مرنے والوں کا گوشت کھاکر زندہ رہے۔
انسانی گوشت کھانے کے بعد پیراڈو خود کو نیم مردہ اور حیوان نما محسوس کرتے تھے، آخری دنوں میں کچا پکا گوشت کھاکر ان کے پیٹ میں درد رہنے لگا تھا اور وہ شدید نقاہت محسوس کرتے رہے تھے۔ پیراڈو نے بتایا کہ زخمی مسافر کراہ رہے تھے اور دھیرے دھیرے موت کے منہ میں جانے لگے، ان کی والدہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اگلے دن فوت ہوئیں اور اس کے بعد کل 17 افراد مزید ہلاک ہوئے جن میں ان کی چھوٹی بہن بھی تھی جس نے پیڈرو کے ہاتھوں میں دم توڑا۔اس کے بعد صرف 16 مسافر ہی بچ پائے جن میں زیادہ تر رگبی کے کھلاڑی تھے جبکہ پیڈرو کی عمر 22 برس تھی۔ انہوں نے جہاز کی نشستوں کو پھاڑ کر انہیں چادر کی صورت دی اور سردی کا مقابلہ کیا جبکہ برف پگھلا کر اس کا پانی پیا، لیکن کھانے کو کچھ نہ تھا کیونکہ بھوک اور نقاہت کے مارے موت قریب سے قریب تر ہورہی تھی۔مسلسل سات روز بھوکا رہنے کے بعد ایک شخص نے مردہ انسانوں کو کھانے کا مشورہ دیا جن کی لاشیں برف میں دبی رہنے کی وجہ سے بہتر حالت میں تھیں جبکہ جہاز کے باورچی خانے سے کچھ بسکٹ، جام جیلی، چاکلیٹ اور شراب کی بوتلیں ہی مل سکی تھیں جو ختم ہوچکی تھیں۔ سب سے پہلے پیراڈو نے انسانی گوشت کھایا اور اس کے بعد بقیہ ساتھیوں نے اسے کراہت سے استعمال کیا، اس طرح یہ لوگ انسانی گوشت کھا کر زندہ رہ گئے یہاں تک کہ امداد آن پہنچی۔