خبرنامہ انٹرنیشنل

ایران نے جوہری معاہدے سے دست برداری کا عندیہ دے دیا

ایران نے جوہری

ایران نے جوہری معاہدے سے دست برداری کا عندیہ دے دیا

تہران (ملت آن لائن)ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقجی نے کہا ہے کہ اگر ایران کو جوہری معاہدے کے مقابل اقتصادی خصوصیات حاصل نہ ہوئیں اور بڑے بینکوں نے تہران کے ساتھ معاملات سے گریز کا سلسلہ جاری رکھا تو اْن کا ملک 2015 میں دستخط شدہ جوہری معاہدے سے دست بردار ہو جائے گا۔ میڈیارپورٹس کے مطابق انہوں نے واضح کیا کہ اگر یہ ہی پالیسی جاری رہی تو ہم ایسے معاہدے کو باقی نہیں رکھ سکتے جس سے ہمیںکوئی فائدہ نہ پہنچے۔انہوں نے خبردار کیا کہ مذکورہ معاہدے کے ختم ہونے سے دنیا کو ایک نئے جوہری بحران کا سامنا ہو گا۔ عراقجی کے مطابق اگر ہم مشترکہ جامع ورکنگ پلان سے محروم ہو گئے تو ایک نئے جوہری بحران کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا۔عراقجی کا مزید کہنا تھا کہ اس ورکنگ پلان کو بچانے کا مطلب ایرانیوں اور امریکی منڈی کے درمیان چْناؤ نہیں بلکہ امن اور امن کی عدم موجودگی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔
……………………….
اس خبر کو بھی پڑھیے…افغانستان، 36 ہزار اہلکاروں پر مشتمل نئی ملیشیاء فورس قائم کرنے کا اعلان

کابل(ملت آن لائن) افغانستان کی وزارت دفاع نے تقریباً 36 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک نئی ملیشیاء تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے جو ان علاقوں میں تعینات کی جائے گی جنہیں فوجی کارروائیوں کے دوران طالبان کے قبضے سے آزاد کرایا گیا ہے۔امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ اعلان ایک ایسے وقت ہوا ہے جب افغانستان کی موجودہ مقامی پولیس کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں شکایات طویل عرصے سے جاری ہیں۔مقامی پولیس تربیت یافتہ مقامی ملیشیاء پر مشتمل ہے جس کی تربیت امریکی فوج نے کی ہے اور انہیں تنخواہ بھی امریکی فوج ہی کی جانب سے دی جاتی ہے۔افغان وزارت خارجہ کے ترجمان دولت وزیری نے اپنے ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ نئی ملیشیاء کے لئے 7500 اہل کار افغان نیشنل آرمی سے لئے جائیں گے اور ساڑھے 28 ہزار دوسرے افراد ہوں گے۔انہوں نے بتایا کہ تمام بھرتیاں ان علاقوں سے کی جائیں گی جو افغان حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور انہیں تربیت دینے کے بعد طالبان سے واپس لینے والے علاقوں میں تعینات کیا جائے گا تاکہ طالبان کو واپسی سے باز رکھا جا سکے۔انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ نئی ملیشیاء کی بھرتی وزارت دفاع کرے گی اور وہ اسی وزارت کے تحت اپنے فرائض سرا نجام دے گی۔انسانی حقوق کے معروف ادارے ہیومن رائٹس واچ کے افغان امور کی ایک سینئر ریسرچر پیٹریشا گاسمن نے اس اعلان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان نیشنل آرمی کے ڈھانچے سے باہر کام کرنے والی فورسز کا احتساب ایک ایسا مسئلہ ہے جو ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان ملیشیاء کے خلاف مقامی آبادیوں میں جنسی زیادتیوں کے الزامات ہیں۔واضح رہے کہ طالبان افغانستان کے 44 فیصد حصے پر یا تو قابض ہیں یا وہاں موجود ہیں اور وہ مسلسل فورسز اور اہداف پر مہلک حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔