خبرنامہ انٹرنیشنل

ایران کے جوہری معاہدے پر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی، ترجمان وزارت خارجہ

ایران کے جوہری معاہدے پر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی، ترجمان وزارت خارجہ
تہران: (ملت آن لائن) ایران نے کہا ہے کہ اس کے جوہری معاہدے پر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی ہے۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے فرانس کے صدر کے بیان کے ردعمل میں کہا ہے کہ ایران کے جوہری معاہدے پر کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئیل میکخواں نے متحدہ عرب امارت کے اخبار’’الاتحاد‘‘ سے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی اور علاقائی سرگرمیوں کی وجہ سے تہران پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ’’ارنا‘‘ نے وزارت خارجہ کے ترجمان باسم قاسمی کے حوالے سے بتایا کہ ہم فرانسیسی رہنماؤں کو متعدد بار بتاچکے ہیں کہ ایران کے جوہری سمجھوتے پر بات چیت نہیں ہو سکتی ہے اور نہ ہی کو ئی اور معاملہ اس کے متن میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ فرانس ایران کے دفاعی امور سے متعلق ہمارے بے لچک موقف سے آگاہ ہے جن پر کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی ہے۔ ابوظہبی کے دورے کے دوران ’’الاتحاد‘‘ کو دیے گئے انٹرویو میں فرانسیسی صدر نے کہا تھاکہ ایران کی علاقائی سرگرمیوں اور اس کے بیلسٹک (میزائل) پروگرام سے متعلق مضبوط رہنا اہم ہے۔ اگرچہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سمجھوتے پر تنقید کرتے رہے ہیں تاہم میکخواں نے کہا کہ ایران کے جوہری معاہدے کا کوئی فوری متبادل نہیں ہے۔ فرانس 2015ء کے جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کیلئے کوشاں ہے جس پر ایران نے چھ عالمی طاقتوں بشمول، برطانیہ، چین، جرمنی، فرانس، روس اور امریکہ کے ساتھ دستخظ کئے تھے۔ میکخواں نے 13 اکتوبر کو ایرانی صدر حسن روحانی سے فون پر ہونے والی گفتگو میں انہیں بتایا تھا کہ فرانس اس سمجھوتے پر قائم ہے تاہم فرانسیسی رہنماء نے اس بات پر زور دیا کہ دیگر اسٹریٹجک معاملات پر ایران کے ساتھ مذاکرات ضروری ہیں جس میں تہران کا بیلسٹک میزائل پروگرام اور علاقائی سلامتی کے امور شامل ہیں، تاہم ایران نے اس تجویز کر مسترد کردیا ہے یہ امر قابل ذکر ہے کہ میکخواں نے ابو ظہبی کا دورہ ایک ایسے وقت کیا ہے جب خطے کے دو روایتی حریف ملکوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والی جوہری معاہدے کے بعد تہران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کر دیا جس کے بدلے میں ایران پر عائد تعزیرات میں نرمی کر دی گئی تھی۔