خبرنامہ انٹرنیشنل

ایک شہید کی یاد میں…عبدالقادر حسن

مجھے نہیں معلوم کہ شہید مطیع الرحمن نظامی کو جب ان کی شہادت گاہ کی طرف لے جا رہے تھے تو اس وقت ان کا کوئی ساتھی بھی ان کے ساتھ تھا یا وہ تنہائی کی اس درد ناک کیفیت سے گزر رہے تھے جب سوائے اللہ تبارک تعالیٰ کے ان کے ساتھ اور کوئی نہیں تھا اور یہ دنیا ان کے لیے اللہ کے بندوں انسانوں سے خالی ہو چکی تھی۔ مطیع الرحمٰن کے لیڈر مولانا مودودی کو جب جیل میں پھانسی والے مجرموں کے کپڑے دیے گئے کہ یہ پہن لیں اور پھر پھانسی گھاٹ کے لیے تیار ہو جائیں تو ان کے ساتھی مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کے پھانسی والے کپڑے اٹھا لیے انھیں آنکھوں سے لگا کر چیخ چیخ کر رونے لگے کہ مودودی مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم اتنے بڑے آدمی ہو کہ شہادت کے لیے منتخب کیے جاؤ گے۔

آج اسی مودودی کا ایک پیرو کار مطیع الرحمٰن اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا جو اعزاز اس کے لیڈر کو نہ مل سکا وہ اس نے حاصل کر لیا اور جب میں نے مسجد نبوی میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ کی صفیں دیکھیں تو میں اپنی محرومی پر بے حد شرمسار ہو گیا۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ میں حکومت سعودی عرب کے اہلکاروں اور خدمت کاروں کی نظروں سے بچ کر اپنے آقا و مولیٰ کے قدموں میں اپنے احساس کے مطابق لوٹ پوٹ ہو رہا تھا تو زندگی کے آخری لمحے کی دعا مانگ رہا تھا کہ جب اس نے آنا ہی ہے تو پھر ابھی کیوں نہ آ جائے لیکن میں کسی مطیع الرحمٰن کی طرح کا خوش نصیب نہیں تھا مجھے مزید گناہوں کے لیے زندہ رہنا تھا اور اپنے نامہ اعمال پر مزید سیاہی بکھیرنی تھی۔

جن لوگوں کو تحریک پاکستان یاد ہے اور ایسے بہت سے ہیں ان کے ذہنوں میں محفوظ ہو گا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے خلاف ہے۔ جماعت والے جواب میں کہتے تھے کہ ہم جس پاکستان کے طلب گار ہیں وہ مسلم لیگ کا پاکستان نہیں ہے چنانچہ مسلم لیگ والوں کی خواہش کے مطابق ان کا پاکستان بن گیا اور یہ جیسا بھی ہے اس کا ذکر کرنا بے کار ہے کیونکہ ہم سب اسے بھگت رہے ہیں اور اس پاکستان کی محبت میں جان دینے والے مطیع الرحمٰن پر ہمارے پاکستان کی حکومت ایک پھُسپھُسا سا احتجاج کر کے ہی چپ ہو گئی شاید اس لیے کہ یہ جس جماعت سے تعلق رکھتا تھا وہ قیام پاکستان کے خلاف تھی اس لیے یہ مرے یا جئے ہمیں کیا یہ سب اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے اور کوئی دوسرا اس کا ذمے دار نہیں۔ نہ معلوم وہ کون لوگ تھے جو حضور پاک ﷺ کے سامنے اس کی مغفرت کے لیے دعا گو تھے اور اس کی شہادت کی قبولیت کی درخواست کر رہے تھے۔

حضور پاک کا فرمان ہے کہ جو کوئی ان کے ہاں حاضری دیتا ہے وہ اس کی سنتے ہیں اور اسے دیکھتے پہچانتے ہیں اپنی امت کے کسی بھی فرد پر آنحضرت توجہ فرماتے ہیں۔ اگر وہ اس لائق نہیں ہے تب بھی حضورؐ کی کرمفرمانی سے محروم نہیں رہتا۔ جس کی ایک مثال ہم آپ بھی ہیں اور اس کی ایک زندہ مثال شہید مطیع الرحمٰن ہیں جن کو مشورہ دیا گیا کہ وہ صدر سے رحم کی اپیل کر دیں مگر انھوں نے انکار کر دیا اور اپنی شہادت پر داغ نہیں لگنے دیا ۔ حضورؐ کے دربار میں جب ان کی غائبانہ نماز پڑھائی جا رہی ہو گی تو کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ حضور پر نور وہاں موجود نہیں ہوں گے۔ ایک امتی کی اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے کوئی نہیں ہر گز نہیں۔

مہربانی ہے ان تمام مسلمانوں کی جنہوں نے مسجد نبوی میں نماز جنازہ ادا کی اور اس شہید کے لیے دعائے مغفرت کی۔ ان سب نے ایک غیر حاضر مسلمان کو یاد کیا اور اسے اپنی دعاؤں سے رخصت کیا۔ مجھے حکومت پاکستان پر افسوس ہے بلکہ میرے پاس اپنے حکمرانوں کے لیے سخت افسوس کے سوا اور کچھ نہیں میں اس شہید سے شرمندہ ہوں جس نے پاکستان سے جدائی کے باوجود اس کا ساتھ نہ چھوڑا یہ وہ پاکستانی تھے جنہوں نے بنگلہ دیش کو پاکستان کی جگہ قبول نہیں کیا اور پاکستان دشمن حکومت کے انتقام کا نشانہ بن گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستانی ہیں بنگلہ دیشی نہیں۔ چنانچہ وہ بھارت کی غلام حکومت کے انتقام کا نشانہ بن گئے اور خوشی کے ساتھ اس اعزاز کو قبول کیا۔ وہ زندگی بھر پاکستانی رہے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں عاقبت بھی ایک پاکستانی کی حیثیت سے عطا کی۔

شہید مطیع الرحمٰن کا جس جماعت سے تعلق بیان کیا گیا ہے وہ ماشاء اللہ زندہ سلامت ہے اور شہید کے لیے لازماً دست بدعا ہو گی۔ کیا امید کی جائے کہ اس جماعت میں سے کوئی مطیع الرحمٰن یہاں بھی پیدا ہو گا اور جس کے وجود سے ہم گنہ گار بھی برکت حاصل کریں گے۔ بنگلہ دیش کے اس شہید نے اپنی شاندار زندگی نظریات کی آبیاری میں بسر کی اور کیا خوش نصیبی ہے کہ زندگی کے آخری لمحے تک ان نظریات پر قائم رہے اور ان کی سرفرازی کے لیے زندگی قربان کر دی دراصل یہ لوگ معلوم ہوتا ہے یہ زندگی اپنے نظریات کی آبیاری اور تبلیغ کے لیے وقف کر دیتے ہیں اس کا اجر پاتے ہیں۔ غنیمت ہے کہ ہم لوگ ان کی یاد تازہ کرنے کے لیے دو چار لفظ لکھنے کی سعادت حاصل کر لیتے ہیں۔