خبرنامہ انٹرنیشنل

برطانیہ اور یورپی یونین کی 43 سالہ رفاقت اختتام پذیر

لندن (آئی این پی) برطانیہ میں عوامی ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی جانب سے یورپی یونین سے انخلا کے حق میں ووٹ کے بعدبرطانیہ اور یورپی یونین کی 43 سالہ رفاقت اختتام پذیر ہوگئی جبکہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ریفرنڈم میں ناکامی کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ 3ماہ بعد وزارت عظمیٰ چھوڑ دوں گا، برطانوی عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اس پر عمل کیا جائے گا،لیبر پارٹی کی تین ماہ بعد ہونے والی کانفرنس میں نئے وزیراعظم کا اعلان کیا جائے گا،آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں ملک کیلئے جو ہو سکا بطور وزیراعظم کروں گا، ملک کو ایک مضبوط اور پرعزم قیادت کی ضرورت ہے جو یورپ میں برطانیہ کے آنے والے کردار پر بات کرے،ہمیں اب یورپی یونین سے بات چیت کے لیے تیار ہونا ہو گا جس کے لیے سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی ایئر لینڈ کی حکومتوں کو مکمل ساتھ دینا ہو گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ برطانیہ کے تمام حصوں کے مفادات کا تحفظ ہو۔جمعہ کو برطانوی میڈیا کے مطابق ریفرنڈم کے نتائج آنے کے بعد 10 ڈائنگ سٹریٹ پر پریس کانفرنس میں ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ وہ اکتوبر میں اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں گے۔برطانیہ کو نئے وزیر اعظم کی ضرورت ہے، تین ماہ بعد عدالت عظمیٰ چھوڑ دوں گا، نئی قیادت یورپی یونین سے مذاکرات کرے، سرمایہ کاروں کو یقین دلاتا ہوں کہ برطانیہ معیشت کی بہتری کیلئے ہر ممکن اقدامات کریں گے، برطانوی عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں،عوام نے یہ فیصلہ سیاسی فیصلے سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد میں دیا، برطانوی عوام نے یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں ووٹ دیا، اہم فیصلوں میں لوگوں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے، لیبر پارٹی کی تین ماہ بعد ہونے والی کانفرنس میں نئے وزیراعظم کا اعلان ہو گا، برطانوی شہریوں کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے، نئے وزیراعظم کا اعلان اکتوبر میں ہو گا، برطانیہ کو نئے وزیراعظم کی ضرورت ہے، علیحدگی کے فیصلے کے باوجود معروضی حالات میں تبدیلی نہیں ہو گی، عوام کا فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، برطانوی عوام اکتوبر تک نیا وزیراعظم منتخب کرلیں، آئندہ ہفتوں میں ملک کیلئے بطور وزیراعظم جو ہو سکا ملک کیلئے کروں گا۔ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ اگرچہ یورپی یونین سے علیحدگی وہ راستہ نہیں جس پر وہ چلنے کا مشورہ دیتے لیکن وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ یورپی یونین کے بغیر رہ سکتا ہے۔انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ برطانیہ کوبر اس کا راستہ تلاش کرنے کے عمل میں جو ممکن ہو سکے گا کریں گے۔کیمرون کا کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ان حالات میں ملک کی قیادت کریں جبکہ عوام نے اس موقف کی حمایت کی ہے جس کے وہ مخالف تھے۔انھوں نے کہا کہ برطانیہ کے عوام کی خواہشات کا احترام کیا جانا چاہیے اور ملک کو ایک مضبوط اور پرعزم قیادت کی ضرورت ہے جو یورپ میں برطانیہ کے آنے والے کردار پر بات کرے۔ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ ہمیں اب یورپی یونین سے بات چیت کے لیے تیار ہونا ہو گا جس کے لیے سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی ایئر لینڈ کی حکومتوں کو مکمل ساتھ دینا ہو گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ برطانیہ کے تمام حصوں کے مفادات کا تحفظ ہو۔جمعرات کو صبح 7بجے سے رات 10 بجے تک برطانیہ کا یورپی یونین کا حصہ رہنے یا چھوڑنے کے حوالے سے ہونے والے ریفرنڈم میں لوگوں کی بڑی تعداد نے ووٹ کاسٹ کئے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 51.8 نے برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کی حمایت میں اور 48.2 نے مخالفت میں ووٹ ڈالے۔ عوامی فیصلے کے بعد برطانوی وزیر اعظم پر بھی استعفیٰ کیلئے دباؤ بڑھ گیا، بعض حلقوں کی جانب سے مڈ ٹرم انتخابات کا بھی مطالبہ سامنے آنے لگا کیونکہ وہ برطانیہ کے یورپی یونین کا حصہ رہنے کے حامی تھے۔برطانوی عوام کے فیصلے سے عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت کو پر لگ گئے اور اس کی قیمت سو ڈالر اضافے سے 1360 ڈالر فی اونس تک جاپہنچی، جبکہ بین الاقومی مارکیٹ میں برطانوی پاؤنڈ کی قدر میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے اور وہ 31 سال کی کم ترین سطح پر آگیا۔ پاؤنڈ کی قدر میں کمی برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے کے خدشے کی وجہ سے آئی۔