خبرنامہ انٹرنیشنل

برطانیہ میں ’بریگزٹ‘ پرحکومتی اپیل کی سپریم کورٹ میں سماعت

لندن:(ملت+اے پی پی) برطانوی سپریم کورٹ میں یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی ’بریگزٹ ‘ کے حوالے سے جاری مذاکرات کی قانونی حیثیت کے تعین کی سماعت ہوئی۔ اس مقدمے کی اہمیت کے پیش نظر پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے تمام 11 ججزحکومتی اپیل کی سماعت کررہے ہیں۔ یہ اپیل حکومت نے ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف کر رکھی ہے جس میں حکومت سے کہا گیا تھا کہ ’بریگزٹ کا عمل‘ شروع کرنے سے قبل تھریسا مے کی حکومت کو اس معاملے پر منظوری حاصل کرنا ہو گی۔ عدالت نے مزید کہا تھا کہ یورپی یونین کے لزبن ٹریٹی کی شق50 کواستعمال کرتے ہوئے یونین سے نکلنے کیلیے مذاکرات شروع کرنے کے اختیارات صرف حکومت کے پاس نہیں ہیں۔ اس فیصلے نے ’بریگزٹ‘ کے حامیوں کو ناراض کر دیا تھا اور چند ایک اخبارات نے ججوں پر الزام لگایا تھاکہ وہ23 جون کے تاریخی ریفرنڈم کے تحت 52 فیصد افراد کے اس فیصلے کو سبوتاژکرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہوں نے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ دیا تھا۔ شق50 پرپارلیمانی ووٹنگ سے یورپ نوازوں کیلیے برطانیہ کوبلاک سے باہر نکلنے کے عمل کو موخر یا ’نرم‘ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔سپریم کورٹ کے صدر(چیف جسٹس) نے کہا ہے کہ اس مقدمے پر عدالتی فیصلہ کسی سیاسی تعصب کے بغیر ہوگا، جج نے مزید کہا کہ اگرچہ وہ بریگزٹ کے حوالے سے سخت احساسات سے واقف ہیں تاہم یہ اپیل قانونی معاملات سے متعلق ہے اور جج کے طور پر ہماراف فرض اس معاملے کو غیر جانبداری سے دیکھنا ہے اور قانون کے مطابق اس کا فیصلہ کرنا ہے۔ عدالت میں اپنے مقدمے کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت غیر ملکی امور سے متعلق فیصلوں کی مجاز ہے اور ان میں معاہدوں سے نکلنا بھی شامل ہے اوریہ ’شاہی صوابدیدی اختیارات ‘ ہیں۔ یہ ’’صوابدید‘‘ کا قانونی کوئی تاریخی باقیات نہیں بلکہ معاصرضرورت ہے۔مقدمہ سننے کیلیے فریقین کے حامیوں کی بڑی تعداد عدالت میں موجود تھی۔ اس کے علاوہ قانونی ماہرین، پریس سے متعلق افراد اور عام لوگ موجود تھے۔عدالتی کارروائی ٹی وی پر براہ راست نشر کی گئی اور اس موقع پر ’شاہی صوابدید‘ کے پرانے حوالے بھی پیش کیے گئے جن میں سے ایک دوسری جنگ عظیم کے دوران اس قانون کے تحت لندن ہوٹل کا دوبارہ سے حصول تھا۔سپریم کورٹ کی رولنگ جنوری میں متوقع ہے۔مقدمے کے دونوں فریقین کے حامیوں نے عدالت کے باہر مظاہرے بھی کیے۔’یورپ نواز ‘فریق کے حامی ڈبل ڈیکر بسوں پر عدالت کے باہر پہنچے انھوں نے ججوں کی ’وگیں‘ پہن رکھی تھیں اور یورپی یونین کے پرچم لہرارہے تھے۔