خبرنامہ انٹرنیشنل

بھارتی زیرانتظام کشمیر کو دنیا میں انتہائی فوجی راج والا علاقہ خیال کیا جاتا ہے، چینی میڈیا

بیجنگ (آئی این پی) بھارتی زیر انتظام کشمیر کو دنیا میں انتہائی فوجی راج والا علاقہ سمجھا جاتا ہے ، بھارتی فوج اور پولیس پر علاقے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مسلسل الزامات عائد کئے جارہے ہیں ۔ یہ بات چینی میڈیا نے سرینگر میں فوجی اہلکار کے ہاتھوں لڑکی آبروریزی کی داستان بیان کرتے ہوئے کہی ہے ۔ کشمیریوں کی اکثریت میں زبردست بھارت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں ، شورش زدہ علاقے کے شہری مزاحمت کا مظاہرہ کرنے کے لئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور حکومتی فورسز پر پتھراؤ اور خشت باری کرتے ہیں جس کے جواب میں حکومتی فورسز آنسوآورگیس کے گولے پھینکتے اور فائرنگ کرتے ہیں جو اکثر مہلک ثابت ہوتے ہیں ،1989ء کے بعد سے انتہا پسندوں اور علاقے میں تعینات بھارتی فوجوں کے درمیان چھاپہ مار جنگ جاری ہے ، کشمیر ہمالیائی علاقہ ہے جو کہ پاکستان اور بھارت کے درمیا ن منقسم ہے اور دونو ں ممالک مکمل طورپر اس کی ملکیت کے دعوے دار ہیں ، برطانیہ سے حصول آزادی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان چار جنگیں ہوچکی ہیں جن میں سے دو خاص طورپر کشمیر پر ہوئی ہیں ، سکول کی طالبہ جو کہ شورش زدہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں موجودہ بحران کی وجہ ہے پولیس کی حراست میں تھی اس پانچویں ہلاکت سے جاری بے چینی بظاہر اور زیادہ طول پکڑ گئی ہے ، اس کے خاندان کا کہنا ہے کہ اسے غیر قانونی طورپر حراست میں رکھا گیا جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ اسے امتناعی طورپر حراست میں لیا گیا تھا جمعہ کو اس لڑکی کی والدہ نے سرینگر میں قائم انسانی حقوق کے ایک گروپ سول سوسائٹیوں کا اتحاد سے رابطہ کیا اور اپنے شوہر اور بیٹی کی رہائی کیلئے مدد کی درخواست کی ، گذشتہ منگل کو گڑبڑ اس وقت پیدا ہو گئی جبکپواڑہ کے سرحدی شہر ہندواڑہ میں مشتعل ہجوم بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ایک طالبہ پر مبینہ طوپر جنسی حملہ کرنے پر سڑکوں پر نکل آیا ، کپواڑہ بھارتی زیر انتظام کشمیر کے گرمائی دارالخلافہ سرینگر شہر سے قریباً 71کلو میٹر شمال مغرب میں ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مشتعل مظاہرین نے شہر میں فوجی چوکی پر حملہ کرنے کی کوشش کی اور جس پر فوج نے ان پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں تین افراد جاں بحق ہو گئے جن میں ایک 55سالہ خاتون بھی شامل ہے ، شام کو لڑکی کی ایک موبائل فون ویڈیو جاری کی گئی (بظاہر پولیس کی طرف سے ) جس میں کسی فوجی کے ملوث ہونے کی تردید کی گئی اور مقامی نوجوانوں پر احتجاج پر اکسانے کا الزام عائد کیا گیا ، اگلے روز بھارتی فوج نے خود کو بے خطا ثابت کرنے کے لئے سرکاری طورپر ویڈیو جاری کی ، یہ ویڈیو ایک پولیس تھانے کے اندر فلمائی گئی ، جس میں اس لڑکی ( جس کا چہرہ دھندلا تھا ) کا بیان اور ایک مردانہ آواز شامل ہے جو اسے بولنے پر مجبور کررہا تھا تا ہم احتجاجی مظاہرے کا سلسلہ بند نہیں ہوا اور اس کے بعد سے علاقے میں دو مزید افراد ہلاک کئے گئے اور اس طرح ہلاک ہونے والوں کی تعداد پانچ ہو گئی ، ہفتے کو لڑکی کی والدہ نے سرینگر میں میڈیا کو بتایا کہ اس کی بیٹی کو تھانے کے اندر ڈرا دھمکا کر بیان دینے پر مجبور کیا گیا اور اسے اپنے خاندان کے ساتھ ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ، اس لڑکی والدہ نے میڈیا کو بتایا کہ وہ سولہ سال کی نوجوان لڑکی ہے اس پر بیان د ینے کیلئے دباؤ ڈالا گیا ہے اسے گذشتہ پانچ روزسے غیر قانونی طورپر حراست میں رکھا ہوا ہے اور ہمیں اسے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ، واقعات کے نتائج بیان کرتے ہوئے اس کی والدہ نے بھارتی فوجی پر الزام لگایا کہ اس نے اس کی بیٹی پر جنسی حملہ کرنے کی کوشش کی ،’’ اپنی سہیلیوں کے ساتھ سکول سے باہر آنے کے بعد وہ ایک مارکیٹ کے واش روم داخل ہوئی ،بھارتی فوجی اچانک نمودار ہوا جس کی وجہ سے اس نے چیخنا چلانا شروع کیا اس وجہ سے مقامی لڑکوں کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی جو اپنی بہنوں کی چیخوں کو برداشت نہ کر سکے اور ایک ہجوم جمع ہوگیا اس کے بعد پولیس اور فوج نے فائرنگ کر کے نوجوانوں کو ہلاک کر دیا ، منگل سے لڑکی پولیس کی حراست میں ہے اور اسے رشتہ داروں سے ملنے کے لئے گھر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق جب لڑکی کے والدہ نے اپنی بیٹی کا پتہ کرنے کے لئے پولیس سے رابطہ کیا تو اسے بھی تھانے میں بند کر دیا گیا ۔ سی سی ایس کے رابطہ کار خرم پرویز نے شنہوا کو بتایا کہ جمعرات کو سولہ سالہ لڑکی جس پر مبینہ طورپر مسلح فورسز کے اہلکاروں نے جنسی حملہ کیا کی والدہ نے اپنی بیٹی اور شوہر کی رہائی کے سلسلے میں فوری قانونی امداد حاصل کرنے کے لئے ہمارے دفتر سے رابطہ قائم کیا ، یہ نوعمر لڑکی اور اس کا والد پولیس کی تحویل میں ہیں اس بچی کی والدہ کو خدشہ ہے کہ اس کے اہلخانہ خاص طورپر اس کی بیٹی پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ غلط بیانات دیں ۔پولیس اور مقامی حکام نے میڈیا کو بتایا ہے کہ اس لڑکی اور اس کے والدہ نے تحفظ دینے کی درخواست دی ہے ’’ حفاظتی حراست میں ہیں ‘‘۔ ایک سنیئر پولیس اہلکار اوتم چند نے میڈیا کو بتایا کہ یہ لڑکی اور اس کا والد ہماری حفاظتی تحویل میں ہیں کیونکہ انہوں نے پولیس سے تحفظ کی درخواست کی تھی تا ہم انسانی حقوق کے گروپوں نے پولیس پر لڑکی کو غیر قانونی طورپر نظر بند رکھنے کا الزام عائد کیا اور جس طریقے سے ویڈیو بیان ریکارڈ اور نشر کیا گیا اس کو چیلنج کیا ہے ۔پرویز نے کہا کہ اس لڑکی کا ویڈیو بیان غیر قانونی ہے کیونکہ یہ بیان اس کے سرپرستوں کی غیر حاضری اور ان کی منظوری کے بغیر لیا گیا ہے اور جس طریقے سے ویڈیو ریکارڈ کی گئی ہے اور اس کے بعد جاری کی گئی ہے ، نوعمروں کو حاصل خصوصی تحفظ بالخصوص جنسی حملے کے کیسوں کی تحقیقات کے دوران کی سنگین خلاف ورزی ہے ، اگر تحقیقات کی جا ئیں تو پولیس اور فوج کے اقدامات لازمی طورپر فو جداری کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ مقامی حکام نے ہفتے کو سی سی ایس کو اپنے دفتر میں پریس بریفنگ کے انعقاد سے روکدیا ، دفتر کو آسالٹ رائفلوں سے مسلح ہنگاموں پر قابو پانے والے درجنوں پولیس اہلکاروں نے گھیرے میں لے لیا ۔ ایک پولیس اہلکار نے کہا کہ ہم آپ کو سی سی ایس کے دفتر کے اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ ہمیں میڈیا کو روکنے کی ہدایت کی گئی ہے یہاں کوئی پریس کانفرنس نہیں ہو گی اس لئے بہتر ہو گا کہ آپ چلے جائیں ۔دریں اثنا علاقے کے ہائیکورٹ نے پولیس سے کہا ہے کہ وہ بتائے کہ کس قانون کے تحت لڑکی کو نظر بند رکھا ہوا ہے ۔