خبرنامہ انٹرنیشنل

بین الاقوامی تنازعات کو پر امن طریقوں سے حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے،ڈاکٹر ملیحہ لودھی

اقوام متحدہ ۔ (اے پی پی) پاکستان نے بین الاقوامی تنازعات کو پر امن طریقوں سے حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے،طاقتور ممالک کے مفادات پر مبنی زبردستی کے اقدامات کی بجائے تعاون پر مبنی طرزعمل ہمارے اقدامات کیلئے رہنما خطوط فراہم کرسکتاہے، ریاستوں کی علاقائی وحدت اور خود مختاری کی خلاف ورزیوں کو روکنا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے15 رکنی سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے رہنما خطوط پر ہونے والے مباحثے میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے چارٹر سے مکمل وابستگی کا اعادہ کیا۔ انہوں نے ممالک کی علاقائی سلامتی اور خودمختاری کی خلاف ورزی سے گریز اور خودمختاری کے حوالہ سے تمام ممالک سے مساوی سلوک کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ مساوی حقوق اور شہریوں کے حق خود ارادیت کی بنیاد پر اقوام کے درمیان دوستانہ تعلقات کے فروغ کے حوالہ سے اپنے مقاصد پورے کرے۔ اگر اقوام متحدہ حق خود ارادیت جیسے اپنے بنیادی اصول پر عملدرآمد کی ضمانت نہیں دے سکتی تو ہر اقوام کے درمیان دوستانہ اور پر امن تعلقات کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ گزشتہ 70 سال کے دوران کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی لیکن تنازعات ،انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی جاری خلاف ورزیوں کی صورت میں موجودہ دنیا کو پر امن بھی قرار دنہیں دیا جا سکتا ۔جنگ اور امن سے متعلق نتیجہ خیز فیصلوں میں یک طرفگی ،دوسرے ممالک میں غیر ضروری مہم جوئی کے نتائج تباہ کن رہے ہیں۔امن و سلامتی کے حوالے سے اقدامات اتفاق رائے سے طے ہونے چاہیں اور ان پر عملدرآمد طاقت کی سیاست کی بجائے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کرایا جانا چاہیئے۔طاقتور ممالک کے مفادات پر مبنی زبردستی کے اقدامات کی بجائے تعاون پر مبنی اپروچ ہمارے اقدامات کیلئے رہنما خطوط فراہم کرے۔ ریاستوں کی علاقائی وحدت اور خود مختاری کی خلاف ورزیوں کو روکنا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے۔ طاقت کے استعمال کی دھمکی،یا طاقت کا استعمال بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے اس لئے اس عمل کو لازماً روکا جانا چاہیئے۔ انہوں نے کہاکہ اس عمل میں ناکامی پہلے ہی یہ تاثر پیدا کررہی ہے کہ اقوام متحدہ بین الاقومی قانون کے محافظ کی بجائے طاقتور ممالک کا آلہ کار بن چکی ہے۔ جب دنیا بھر کے لوگ اقوام متحدہ سے انصاف اور شفافیت کی توقع رکھتے ہیں تو اس کے رکن ممالک کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عالمی ادارے کے اصولوں پر کاربند ہوں اور اس کا اظہار ان کے اقدامات سے بھی ہو۔ اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو ہم نہ صرف گزشتہ برسوں کے دوران حاصل ہونے والی ترقی کو خطرات سے دوچار کردیں گے بلکہ بڑھتی افراتفری اور مشکلات والی دنیا جہاں ناانصافی اور عدم تحفظ بھی پھیل رہا ہے سے عالمی ادارے کی لا تعلقی کے تاثر کا خطرہ بھی مول لیں گے۔انہوں نے کہاکہ ایک ایسے وقت میں جب متعدد تنازعات دنیا میں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کررہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کے ذہنوں میں بین الاقوامی سطح پر امن وسلامتی کے انتظام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اثر ورسوخ بارے سوالات پیدا ہوتے ہیں یہ ایک بھاری قیمت ہوگی جو ہم ادا کریں گے۔سلامتی کونسل میں ہونے والے اس مباحثے کا افتتاح اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کیا جبکہ70 شرکاء نے اس موقع پر اظہار خیال کیا۔ بان کی مون نے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں روکنے کو سلامتی کونسل کیلئے ایک بڑا چیلنج قرار دیا۔