خبرنامہ انٹرنیشنل

جعلی ان کاؤنٹر :سکھوں کے قتل میں ملوث 47 پولیس اہلکاروں کو عمرقید

نئی دہلی(آن لائن)بھارتی ریاست اتر پردیش کے پیلی بھیت ضلعے میں 25 سال پہلے ہونے والے ایک مبینہ تصادم میں 10 سکھ زائرین کی ہلاکت پر خصوصی عدالت نے 47 پولس اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنا دی ۔12 جولائی 1991 کو پولیس نے دس سکھ زائرین کو شدت پسند قرار دیتے ہوئے مبینہ تصادم میں ہلاک کر دیا تھا۔ بھارتی تفتیشی ادارے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج للّو سنگھ نے اس تصادم پر کئی طرح کے سوال اٹھاتے ہوئے اسے فرضی قرار دیا ہے۔کسی ایک معاملے میں اتنے پولیس اہلکاروں کو عمر قید کی سزا کا شاید یہ ملک میں پہلا واقعہ ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں انکاؤنٹرز ایک حد تک انصاف کے سست اور الجھے ہوئے نظام کا نتیجہ ہیں۔ عام طور پر ایسے معاملات میں سماعت میں مسلسل تاخیر اور پھر گواہان کا اپنی پہلی گواہیوں سے پھر جانے کی وجہ سے کیسز ختم ہو جاتے ہیں۔پیلی بھیت میں 12 جولائی 1991 کو پٹنہ صاحب اور کچھ دوسرے مقامات سے سکھ زائرین ایک بس سے واپس آ رہے تھے۔ بس میں 25 مسافر سوار تھے جس میں سے چند لوگوں کو جبرا اتار لیا گیا۔جس کے بعد مزید پولیس اہلکار وہاں آ گئے اور انھوں نے ان لوگوں کو کئی گروپ میں منقسم کر لیا اور جنگل کی جانب لے گئے جہاں انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔اس کے بعد انھوں نے جھوٹی کہانیاں تیار کیں۔ پولیس نے اپنی ایف آئی آر میں ان سب کو شدت پسند قرار دیتے ہوئے پولیس پر حملہ کرنے کا الزام لگایا لیکن بعد میں مارے جانے والے لوگوں کے وارثین نے اس تصادم کو فرضی قرار دیا تھا۔خیال رہے کہ اس زمانے میں سکھ تنظیمیں علیحدہ ملک کے لیے متصادم تھیں۔15 مئی 1992 کو سپریم کورٹ نے اس معاملے میں دائر پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے سی بی آئی جانچ کا حکم دیا تھا۔ سی بی آئی نے اس معاملے میں 57 پولیس اہلکاروں کو ملزم ٹھہرایا تھا جن میں سے دس کی مقدمے کی سماعت کے دوران موت ہو گئی۔25 سال پہلے ہونے والے اس واقعے پر لکھنے والے سینیئر صحافی اروند سنگھ کہتے ہیں کہ اس وقت کلیان سنگھ حکومت نے معاملے میں ملزم بنائے جانے والے پولیس اہلکاروں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس کے بعد جن جماعتوں کی بھی حکومتیں آئیں انھوں نے بھی اس کوشش کو جاری رکھا۔اس وقت ریاست میں بی جے پی کے کلیان سنگھ کی حکومت تھی اور اس نے پیلی بھیت کے اس وقت کے پولیس سپرنٹنڈنٹ آر ڈی ترپاٹھی سمیت مبینہ تصادم میں شامل تمام پولیس اہلکاروں کی تعریف کرتے ہوئے انھیں انعام و اکرام سے نوازا تھا۔اس واقعے سے منسلک سابق رکن اسمبلی اور کسان رہنما ؤں ایم سنگھ کہتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں سکھ انتہا پسندی کو روکنے میں ناکام پولیس والوں نے ایسے بہت سے معصوم سکھوں کو پریشان کیا۔جعلی مقابلے میں ہلاک کیے جانے والے سکھوں کے رشتہ داروں نے عدالت کے باہر مظاہرہ کیا اور ان کا کہنا تھا کہ پولیس والوں کے ساتھ نرمی برتی گئی ہے کیونکہ ان کے مطابق انھیں سزائے موت ہونی چاہیے تھی