خبرنامہ انٹرنیشنل

رجب طیب اردوگان بھاری اکثریت سے پھر منتخب

ترکی میں ہونے والے انتخابات میں رجب طیب اردوگان کی کامیابی کا سرکاری طور پر اعلان کردیا گیا ہے۔ ترکی کے الیکشن کمیشن نے صدررجب طیب اردوگان کی کامیابی کا سرکاری طور پراعلان کیا۔ ترک صدر رجب طیب اردوگان نے استنبول میں اپنا ووٹ کاسٹ کردیا، اس موقع پر ان کے ہمراہ خاتون اول ایمن اردوگان بھی تھیں۔

ووٹ ڈالنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رجب طیب اردوگان نے کہا کہ ترکی کے عوام بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نکلے ہیں جو جمہوری انقلاب کا نتیجہ ہے۔ ترک صدر نے کہا کہ ووٹنگ شروع ہونے کے ابتدائی دو سے تین گھنٹوں کے دوران ٹرن آئوٹ 50 فیصد سے زائد رہا جو کہ انتہائی خوش آئند ہے۔

صدرر مملکت ممنون حسین اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کی جانب سے بھی انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد پیش کی گئی ہے۔

ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد سپریم الیکشن کمیٹی چیف نے اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ 64 سالہ رجب طیب اردوگان نے پہلے ہی مرحلے میں صدارتی انتخاب واضح اکثریت سے جیت لیا ہے، تاہم الیکشن کمیشن نے مزید تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔ حتمی سرکاری اعلان جمعہ کو کیا جا ئے گا، تاہم سرکاری میڈیا رپورٹس کے مطابق رجب طیب اردوگان نے 52.5 فیصد ووٹ حا صل کر کے میدان مارلیا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ترکی میں صدارتی امیدوار کے لیے50 فیصد سے زائد ووٹ لینا لازمی ہے،اسی تناظر میں اگرامیدوار مذکورہ ہدف کے حصول میں ناکام رہتا تو پھر 7 جولائی کو دوبارہ مقابلہ ہوتا، تاہم سرکاری اعلان اس ابہام کو ختم کردیا۔ انتخابات کیلئے نیشنل الائنس اورایچ ڈی پی پارٹی نے طیب اردوگان کے خلاف کھڑے ہونے والے سیاسی حریف کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

حزب اختلاف کے محرم انسے 31.7فی صد ووٹ حا صل کر سکے۔ ترک میڈیا کے مطابق صدراردوگان کے مدِمقابل محرم انسے نے اپنی شکست قبول کرلی ہے۔ ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی اور صدراتی انتخابات ایک ساتھ ہوئے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 1 لاکھ 80 ہزار بیلٹ باکس لگائے گئے، گزشتہ انتخابات میں مجموعی طور پر 80 سے 85 فیصد ٹرن آؤٹ رہا تھا۔

واضح رہے کہ اردوگان2003ء سے2014ء تک ترکی کے وزیراعظم بھی رہے ہیں۔ انہوں نے امریکا اور فرانس کی طرز پر ترکی میں بھی ایگزیکٹو اختیارات کے حامل عہدہ صدارت کیلئے مہم بھی چلائی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ترکی کے آئین میں کسی بھی تبدیلی کو ریفرینڈم کے بغیر عملی جامہ پہنانے کیلئے کسی جماعت کے پاس دو تہائی اکثریت ہونی چاہئے۔

گزشتہ سال پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کے حوالے سے ریفرنڈم میں طیب اردوگان کو کامیابی ملی تھی، موجودہ انتخابات میں جیتنے والا امیدوار قانونی طور پر صدارتی نظام کے تحت طاقتور صدر کہلائے گا۔

صدارتی امیدوار اور انتخابی حلقے

طیب اردگان کی سیاسی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ (اے کے) کے ساتھ نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کا اتحاد ہے جس کے تحت پیپلز الائنس تشکیل دیا گیا۔ سیاسی حریف کا اتحادی بلاک نیشنل الائنس ہے، جس میں ریبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) دائیں بازو کی جماعت گڈ پارٹی (آئی اے آئی)، ڈیموکریٹک پارٹی اور ایس پی شامل ہیں۔ صدر طیب اردگان کو کئی محاذ پر شدید مخالفت کا سامنا رہا اور انہوں نے مدت ختم ہونے سے 18 ماہ قبل ہی انتخابات کرانے کا اعلان کردیا تھا۔

ترک نیوز ایجنسی ایناڈولو کے مطابق الیکشن کے موقع پر کچھ افراد نے سوشل میڈیا پر طیب اردگان کے خلاف کئی ویڈیوز شیئر کیں، جن میں ترک صدر کے خلاف عامیانہ الفاظ استعمال کیے گئے۔ ترک پولیس نے صدر کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کرنے کے الزام میں ازمر صوبے کے شہر السانک سے 6 افراد کو گرفتار اور مزید کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے مارنا شروع کردیئے۔ بعد ازاں گرفتار افراد کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے انہیں ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔