خبرنامہ انٹرنیشنل

سعودیہ اور مصر نے امریکی منصوبہ’صدی کی ڈیل‘ ناکام بنایا، فلسطینی سفیر

مصرمیں تعینات فلسطینی سفیر دیاب اللوح نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے فلسطین، اسرائیل تنازع کے حل کے لیے تجویز کردہ امن منصوبہ ’صدی کی ڈیل‘ کو سعودی عرب اور مصر نے ناکام بنا دیا ہے۔

سعودی عرب کے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں فلسطینی سفیر نے کہا کہ حالیہ ایام میں امریکا کی جانب سے ’صدی کی ڈیل‘ کے بارے میں کوئی بات نہ تو فلسطینی حکام سے کی گئی ہے اور نہ ہی کسی عرب ملک سے اس پر بات کی گئی ہے۔ تاہم امریکا اور اسرائیل کی طرف سے بعض اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’صدی کی ڈیل‘ کا مقصد بیت المقدس کو مکمل طورپر اسرائیل کے حوالے کرنا اور آزاد فلسطینی ریاست کےقیام کی راہ روکنا ہے۔

فلسطینی سفیر دیاب اللوح نے کہا کہ امریکی امن منصوبے کو ہم بعض اقدامات کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ امریکا نے غیرمنقسم بیت المقدس کو اسرائیل کا ابدی دارالحکومت تسلیم کرکے اپنا سفارت خانہ بھی تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا ہے۔

واشنگٹن میں تنظیم ازادی فلسطین [پی ایل او]کے مراکز بند کردیے گئے ہیں۔ امریکا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے قائم اقوام متحدہ کی ’ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی‘اونروا‘ کی مالی امداد بھی کم کردی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کو ناممکن بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ ’صدی کی ڈیل‘ کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر سعودی عرب، مصر اور اردن سمیت کئی دوسرے ممالک کی کوششوں کی وجہ سے امریکا صدی کی ڈیل اسکیم کا اعلان نہیں کرسکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات سے سنہ 1967ء سے پہلے والی پوزیشن پر اسرائیل کی واپسی اور دو ریاستی حل کی نفی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس فلسطینی علاقوں پر یہودی بستیوں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے اسرائیل کو یہودیوں کا قومی وطن قرار دے کر 1 کروڑ 80 لاکھ فلسطینیوں کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔

مصر کا موقف

فلسطینی سفیر نے مزید کہا کہ صدی کی ڈیل کے حوالے سے جو باتیں منظرعام پرآئی ہیں انہیں کسی عرب ملک نے قبول نہیں کیا ہے۔ سنا ہے کہ صدی کی ڈیل میں مصر کے جزیرہ نما سیناء کے کچھ حصے اور غزہ کی پٹی پر مشتمل ایک لولی لنگڑی فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز ہے مگر فلسطینی اتھارٹی اور مصر دونوں نے ایسی ریاست کے تصور کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ غزہ کے بغیر یا صرف غزہ کو فلسطینی ریاست قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

مصری صدر ایک سے زاید مواقع پر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنا اصولی موقف واضح کرچکے ہیں۔ مصر کا اصولی موقف وہی ہے جو دوسرے عرب ممالک کا ہے۔ وہ یہ کہ سنہ 2002ء کے عرب امن فارمولے کے مطابق اسرائیل سنہ 1967ء کی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر واپس جائے اور مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی مملکت کا دارالحکومت تسلیم کرے۔