خبرنامہ انٹرنیشنل

شام پر فضائی حملہ:‌ مایوس ہوں لیکن حیران نہیں، امریکی وزیر خارجہ

واشنگٹن (ملت آن لائن + آئی این پی) امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ امریکہ شام کے فضائی اڈے پر حملوں کے روسی ردعمل سے مایوس ہے لیکن حیران نہیں۔امریکی میڈیا کے مطابق وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کا کہنا ہے کہ میں روسی ردعمل سے مایوس ہوا ہوں۔ اس سے یہ بات صاف ہے کہ روس بشار الاسد کی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور خاص طور پر اس وقت جب شامی حکومت نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف اندوہناک کارروائیاں کی ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ اس لیے میں کافی مایوس ہوں لیکن افسوس کے ساتھ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ مجھے حیرانی نہیں ہوئی۔اس سے قبل اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں امریکہ نے کہا کہ امریکہ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ شام دوبارہ کبھی کیمیائی ہتھیاروں کو استعال نہ کر سکے جبکہ روس نے امریکہ کو شام پر دوبارہ میزائل حملہ کرنے کی صورت میں سخت نتائج کی تنبیہ کی ہے۔اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے کہا کہ امریکہ نے شام کے اس فوجی اڈے کو نشانہ بنایا جس پر شبہ ہے کہ وہاں سے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے۔امریکی سفیر نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس کو بتایا ‘ہم مزید حملوں کے لیے تیار ہیں تاہم امید ہے کہ اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔’نکی ہیلی کے مطابق ‘یہ ہماری قومی سلامتی کے مفاد میں ہے کہ ہم کیمیائی ہتھیاروں کے پھیلا کو روکیں۔’واضح رہے کہ امریکہ نے شام میں باغیوں کے زیرِ اثر علاقوں میں شامی فوج کی جانب سے مشتبہ کیمیائی حملے کے جواب میں جمعے کی صبح مشرقی بحیر روم میں موجود اپنے بحری بیڑے سے 59 ٹاما ہاک کروز میزائلوں سے شام کے ایک فضائی اڈے کو نشانہ بنایا تھا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں روس نے امریکہ کو شام پر دوبارہ میزائل حملہ کرنے کی صورت میں سخت نتائج کی تنبیہ کی۔روس کے نائب سفیر ولادمیر سفکرونوف کا کہنا تھا کہ ‘آپ کو سخت نتائج کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اس کی تمام ذمہ داری ان لوگوں کے کندھوں پر ہوں گی جنھوں نے یہ حملے کیے۔’ اس سوال کے جواب میں کہ وہ سخت نتائج کیا ہوں گے، ولادمیر سفکرونوف نے کہا: ‘لیبیا کو دیکھیں، عراق کو دیکھیں۔’دوسری جانب انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام میں فوجی کارروائی بین الاقوامی مسلح تصادم کے زمرے میں آتی ہے۔عالمی ریڈ کراس کی ترجمان نے کہا ‘ایک ملک کی طرف سے دوسرے ملک کی رضا مندی کے بغیر فوجی کارروائی انٹرنیشنل آرمڈ کانفلکٹ یعنی بین الاقوامی مسلح تصادم کے زمرے میں آتی ہے۔’اطلاعات کے مطابق امریکہ نے شامی فوجی تنصیب پر حملہ کیا اور یہ بین الاقوامی مسلح تصادم کے زمرے میں آتا ہے۔’یاد رہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے اس سکیورٹی فورس کو نشانہ بنایا ہے جس کو شامی صدر بشار الاسد خود کمانڈ کرتے ہیں۔ان حملوں کے بعد بشار الاسد کے حامی روس نے ان حملوں کی مذمت کی۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے ان حملوں کو ‘ایک خود مختار ملک کے خلاف جارحیت’ قرار دیا۔روس کے دفتر خارجہ نے کہا ‘یہ صاف ظاہر ہے کہ امریکی میزائل حملوں کی تیاری پہلے ہی سے کی گئی تھی۔ کسی بھی ماہر کے لیے یہ واضح ہے کہ واشنگٹن نے حملوں کا فیصلہ ادلیب کے حملے سے پہلے کیا تھا اور ادلیب کا واقعہ بہانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔’روسی دفتر خارجہ نے شام کے فضائی اڈے پر امریکی حملے کے بعد امریکہ کے ساتھ شام میں فضائی تحفظ کے معاہدے کو معطل کردیا۔یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان کیا گیا تھا تاکہ دونوں ملکوں کی فضائیہ شام کی حدود میں ایک دوسرے کو نشانہ نہ بنائیں۔