خبرنامہ انٹرنیشنل

طالبان مذاکرات پر آمادہ نہ ہوئے توان کےخلاف کاروائی ہوگی:افغان نائب وزیرخارجہ

بیجنگ(آئی این پی ) افغانستان کے نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے کہا ہے کہ افغان امن کے حوالے سے پاکستان ،افغانستان ،چین اور امریکہ پر مشتمل چار رکنی رابطہ گروپ کا بنیادی مقصد طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنا ہے ۔ اگر چاروں ممالک طالبان کو مذاکرات میں آمادہ کرنے میں ناکام ہوئے تو امن عمل میں حصہ نہ لینے والے طالبان گروپ کے خلاف سخت کاروائی ہو گی ۔ افغانستان کے نائب وزیرخارجہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اب تک رکن ممالک کی کاوشوں کے باوجود طالبان مذاکرات کے لئے آمادہ نہیں ہوئے ۔افغانستان کا موقف واضح ہے کہ ہم رکن ممالک سے معلومات حاصل کریں گے کہ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے کیا کاوشیں کی گئیں ۔طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے رکن ممالک نے وعدہ کیا تھا۔ چار رکنی ممالک کے گروپ کی اہم بات بہتر نتائج حاصل کرنا ہے ۔ جب یہ گرو پ تشکیل دیا گیا تو ان ممالک نے بہترین کاوشوں کا آغاز کیا تاہم ابھی تک اچھے نتائج سامنے نہیں آئے ۔ ہر ملک کا اپنا ایجنڈا ہے تاہم چار رکنی ممالک کے گروپ کا بنیادی مقصد طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر اس گروپ میں مزید ممالک کو شامل کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا تاہم اس حوالے سے متفقہ طور پر فیصلہ کرنا ہوگا اور متوقع طور پر یہ ممالک روس ، بھارت اور ایران ہو سکتے ہیں ۔ مختلف آراء کے بارے میں جاننا بہتر ہو گا تا ہم ایک ہی وقت میں اگر بہت زیادہ ممالک اپنی رائے کا اظہار کریں گے تو فیصلہ کرنے میں بھی مشکل ہو گی ۔ فی الوقت چار ممالک میں ہی کوئی معاہدہ حتمی نہیں ہو رہا اور اگر زیادہ ممالک کو شامل کیا گیا تو صورتحال مزید الجھ جائے گی ۔ چین کا متحرک ہونا ایک مثبت پیغام ہے ۔ چین کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ اسے خطے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطہ سازی کو فروغ دینا ہو گا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ چین معاشی ،سیاسی ،دفاعی اور سیکیورٹی کے حوالے سے رابطہ سازی کو فروغ دے ۔ یہ ایسے شعبے ہیں جن میں چین بہتر طور پر ہماری مدد کر سکتا ہے ۔ سیاسی عمل کے دوران چین نے طالبان کے ساتھ بھی رابطہ کیا ہے جبکہ ان کے پاکستان کے ساتھ بھی اچھے مراسم ہیں اور ان رابطوں کو بہتر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی حاصل کی جاسکتی ہے کہ پاکستان اپنے وعدے پورے کرے ۔ دفاعی حوالے سے بات کی جائے تو خطے کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جبکہ چین کو بھی ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ سے خطرہ ہے ۔ اس تحریک کے جنگجو افغانستان میں بھی موجود ہیں وقت کی ضرورت ہے کہ ان خطرات سے نمٹنے کے لئے چین افغانستان کی مدد کرے ۔ ہر کسی کا اپنا علیحدہ کردار ہے ۔ چین ایک براہ راست ہمسایہ ہونے کے ناطے افغانستان میں عدم استحکام سے متاثر ہے اور اس کا اپنا ایک کردار بھی ہے ۔ امریکہ سڑیٹجک شراکت دار ہونے کے ناطے ایک لاکھ فوجیوں کے ساتھ افغانستان میں موجود ہے جبکہ ان کے سڑیٹجک تحفظات بھی ہیں ۔ ہمارے لئے منفرد بات یہ ہے کہ چین اور امریکہ افغانستان میں متفقہ طور پر کسی ایک معاملہ پر رضا مند نہیں ہو سکتے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان عالمی طاقتوں کے مابین ایک تعاون کی علامت کے طور پر جانا جائے ۔ ہر سال طالبان موسم بہار میں حملوں کا آغاز کرتے ہیں اور ہر موسم بہار میں وہ مختلف علاقوں میں آپریشنز بھی کرتے ہیں ۔ وہ مختلف علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں ۔ اس سال طالبان نے عمری آپریشنز کے نام سے حملوں کا آغاز کیا ہے تاہم انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملی ۔ افغان افواج ان کا پیچھا کرتے ہوئے ان پر حملے کر رہی ہے ۔ افغان صدرنے سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لئے جامع منصوبہ بندی کی ہدایات جاری کیں ہیں ۔ وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور ہماری ایجنسیاں طالبان کو ہدف بنا رہی ہیں ۔ ہم ان کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور طالبان بھی یہی چاہتے ہیں ۔ ہم گزشتہ ڈیڑھ سال سے مستقل طور پر سب کو بتا رہے ہیں کہ افغانستان امن کا خواہشمند ہے اور اس عمل کے لئے دروازے کھلے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ طالبان نے تشدد کا راستہ اختیار کیا ۔ افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار واضح ہے اور اسے پاکستان نے دنیا کے سامنے تسلیم کیا ہے ۔ انہوں نے انٹرویو میں الزام عائد کیاکہ طالبان کی قیادت اور انفراسٹرکچر پاکستان میں موجود ہے ۔ پاکستان کو چاہیے کہ طالبان پر اپنا دباؤ برقراررکھتے ہوئے انہیں مذاکرات کے لئے آمادہ کرے اگر پاکستان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنا چاہتا ہے انہیں ملک سے نکالے ۔ہم جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیسے بات کرنی ہے ۔ خطے میں تشدد اور دہشت گردی میں اضافہ مختلف ممالک کو عدم استحکام سے دوچار کرے گا۔ پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا ہے ۔افغانستان یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان نے اچھے فیصلے نہیں کئے ۔