خبرنامہ انٹرنیشنل

فتح اللہ گولن حوالگی؛ ترکی اورامریکا کےتعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ

نیویارک: (اے پی پی) ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد اور ترکی کی جانب سے امریکہ پر لگائے گے سنگین الزامات دونوں ممالک کے تعلقات کو حیرت انگیز سطح تک متاثر کر سکتے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر محمد اکرم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترکی میں ناکام بغاوت کے پیچھے امریکہ کا براہ راست ہاتھ نہیں ہے لیکن فتح اللہ گولن کے ساتھ امریکہ کی ہمدردیاں بالکل اسی طرح ہو سکتی ہیں جس طرح برطانیہ براہ راست ایم کیو ایم سے تعاون نہیں کرتا لیکن الطاف حسین پر لگنے والے الزامات کے ٹھوس ثبوت ہونے کے باوجود برطانوی حکومت اس کو پناہ دئیے ہوئے ہے اور اندرون خانہ اُس کو سپورٹ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں مقیم ترکی کو مطلوب فتح اللّہ گولن واقعی ایک انتہا پسند ذہن کا مالک ہے اور وہ امریکہ میں بیٹھ کر اُسی طرح رُول کر رہا ہے جس طرح طیب اردگان ترکی میں ۔ انہوں نے کہا کہ ترک فوج میں ایک بڑا گروپ ابھی تک اتاترک کو فالو کر رہا ہے اور اسکی کوشش ہے کہ ترکی میں سیکولرازم کا نظام قائم ہو ۔ سٹی یونیورسٹی نیویارک گریجویٹ جرنلزم کے کو ڈائریکٹر جہانگیر خٹک کا کہنا ہے کہ ترکی کی حکومت کی جانب سے امریکہ پر لگایا گیا سنگین الزام کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات انڈر پریشر آسکتے ہیں ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ترکی کو مطلوب فتح اللّہ گولن پنسلوانیا میں تقریباً تین چار سو ایکڑ کے عالیشان محل میں رہتا ہے ، وہ بہت امیر شخص ہے جبکہ ترکی اور امریکہ سمیت دیگر ممالک میں اسکے فالورز کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں طیب اردگان اور گولن بہت گہرے دوست تھے لیکن پھر ان کے درمیان کچھ معاملات میں اختلافات پیدا ہو گے ۔ معروف تجزیہ نگار سلیم صدیقی نے کہا کہ ترکی کے پاس کوئی ٹھوس شواہد نہیں کہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ ناکام بغاوت کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے جب یہ واقعہ ہوا تھا تو امریکہ اور گولین نے اس کی سخت مذمت کی تھی ۔ انہوں نے کہا داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کے خلاف امریکہ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ کامیاب نہیں ہو سکتی اگر ترکی اپنا کلیدی کردار ادا نہ کرئے تو پھر کیونکر امریکہ ترکی میں مارشل لاء لگوائے گا۔ بین الاقوامی امور پر دسترس رکھنے والے محسن ظہیر نے کہا کہ محض گولن کو امریکہ میں پناہ دینے پر ترکی کی جانب سے اتنا بڑا الزام عائد کرنا درست نہیں ۔ طیب اردوگان ایک مفاہمت پسند انسان ہیں چونکہ اُس کے خلاف اتنا بڑا واقعہ رونما ہوا ہے اس وجہ سے وہ جذباتی اور انکے لہجہ میں اشتعال ہے لیکن چونکہ ترکی اُس خطے میں ایک کی پلیئر ہے اس لیئے امریکہ کبھی بھی ترکی کو نظر انداز نہیں کر سکتا ، وقت کے ساتھ ساتھ واشنگٹن اور ترکی کے سفارتی اور باہمی تعلقات میں بہتری آنا شروع ہو جائیگی ۔