خبرنامہ انٹرنیشنل

’’ ناسا نے مریخ پر مغوی بچوں کی کالونی بنا رکھی ہے ! ‘‘

ہیوسٹن(ملت آن لائن)’’ مریخ پر غلام بچوں کی کوئی کالونی نہیں ہے۔ وہاں بس خودکار مشینیں اپنے کام میں مصروف ہیں۔ وہاں کسی انسان کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘ پچھلے ہفتے ناسا کے ترجمان گائے ویبسٹر کا یہ بیان دنیا بھر میں حیرت سے سُنا گیا۔
ہر ایک یہ سوچ رہا تھا کہ ناسا جیسے ادارے کو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی۔ دراصل گذشتہ چند روز سے امریکا میں یہ افواہ گردش کررہی تھی کہ ناسا نے زمین سے بچے اغوا کرکے انھیں مریخ پر منتقل کیا ہے، جہاں انھیں غلام بنا کر ان سے مختلف کام کروائے جارہے ہیں۔ اگر کسی عام آدمی کی جانب سے یہ بات کہی جاتی تو اسے ہر ایک نظرانداز کردیتا مگر یہ دعویٰ امریکی سی آئی اے کے سابق افسر نے کیا ہے۔ اسی لیے یہ بات ملک بھر میں زیربحث آنے لگی۔ چند ہی روز میں سی آئی اے افسر کے اس دعوے پر شورشرابا اتنا بڑھ گیا کہ ناسا کو باقاعدہ اس کی تردید کرنی پڑی۔
سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق افسر رابرٹ ڈیوڈ اسٹیلے نے ایک ریڈیو پروگرام میں میزبان سے گفت گو کرتے ہوئے یہ حیرت انگیز دعویٰ کیا تھا کہ مریخ پر ایک انسانی کالونی موجود ہے۔ اس آبادی کے باسی وہ بچے ہیں جنھیں پچھلے دو عشروں کے دوران اغوا کرکے وہاں پہنچایا گیا ہے۔ اسٹیلے کے مطابق ان بچوں کو غلام بنا کر رکھا گیا ہے اور وہاں ان سے مختلف کام لیے جارہے ہیں۔
ریڈیوپروگرام کے میزبان، ایلیکس جونز متنازع موضوعات پر اور متنازع شخصیات کے ساتھ پروگرام کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ اس عجیب و غریب دعوے پر ایلیکس جونز نے اسٹیلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ناسا ہمیں یہ نہیں دکھانا چاہتا کہ مریخ پر ہوکیا رہا ہے۔ اسی لیے جب خلائی تحقیقی گاڑیاں وہاں پہنچتی ہیں تو کچھ عرصے بعد ان کا زمینی رابطہ منقطع کردیا جاتا ہے۔دوران پروگرام ایلیکس جونز نے دعویٰ کیا کہ ناسا کے نوّے فی صد زائد خلائی مشن خفیہ ہوتے ہیں، اور مجھے ناسا میں اہم عہدوں پر تعینات انجنیئرز نے کہا ہے کہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے وہاں ہو کیا رہا ہے۔
رابرٹ ڈیوڈ اسٹیلے کی جانب سے یہ دعویٰ ایسے وقت پر سامنے آیا جب کہا جارہا تھا کہ امریکی خلائی ایجنسی مریخ پر زندگی کے وجود کی دریافت کا اعلان کرنے والی ہے۔ اس دعوے کی حمایت میں ایک یوٹیوب چینل پر موجود ویڈیو کلپ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مذکورہ کلپ میں ناسا کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر تھامس زربچین کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ ناسا جلد ہی مریخ پر حیات کی دریافت کا اعلان کرنے والی ہے۔
واضح رہے کہ خلائی مخلوق کی تلاش میں سائنس داں عشروں سے سرگرداں ہیں۔ اس سلسلے میں مریخ ان کی خصوصی توجہ کا مرکز چلا آرہا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق طبی حالات میں زمین سے کسی حد تک مشابہ ہونے کے باعث مریخ پر زندگی کا وجود ممکن ہوسکتا ہے۔ اسی بنیاد پر امریکی خلائی ایجنسی مریخ کی جانب چند دہائیوں کے دوران متعدد مشن روانہ کرچکی ہے۔ اس وقت بھی ناسا کی خلائی تحقیقی گاڑیاں سُرخ سیارے کی زمین پر دندنارہی ہیں۔ مریخ پر ٹھوس برف کئی برس پہلے دریافت ہوچکی تھی نیز یہ بھی کہ اس سیارے پر کبھی سمندر اور دریا رواں رہتے تھے۔
کچھ عرصہ قبل جب یہ خبر پھیلی کہ ناسا خلائی مخلوق کی موجودگی کا اعلان کرنے والی ہے تو اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والوں میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ پھر رابرٹ اسٹیلے کے دعوے نے بحث کا ایک نیا دروازہ کھول دیا۔ اس دعوے نے چند ہی روز میں اتنی اہمیت اختیار کرلی کہ ناسا کو تردید کرنی پڑی۔ مریخ پر غلام بچوں کی کالونی کے وجود کا انکار کرنے کے ساتھ ساتھ ناسا کے ترجمان نے اس خبر کو بھی افواہ قرار دیا کہ ایجنسی کی جانب سے خلائی مخلوق کی دریافت کا اعلان ہونے والا ہے۔