خبرنامہ انٹرنیشنل

مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی ا ور لیاقت بلوچ کی پیشگی تشویش۔۔۔اسداللہ غالب

یہ نوحہ جماعت ا سلامی کے ایک کارکن کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے دفاع ا ور تحفظ کی جنگ لڑنے والے ا ور قائد اعظم کے پاکستان کو متحد رکھنے کی کوشش کرنے والے ایک بہادر انسان اور محب وطن پاکستانی کا ہے۔
بنگلہ دیش میں مطیع ا لرحمن نظامی کو پھانسی نہیں ہوئی بلکہ یہ پھانسی آج کے پاکستان کے اجتماعی ضمیر کو دی گئی، جو با لکل بے حس ہو چکا ہے۔مر دہ ، ناکارہ اور از کار رفتہ ہوچکا ہے۔
میرا خیال تھا کہ پرائم منسٹر ہاؤس کے ہنگامی اجلاس میں وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اس نکتے پر غور کیا ہو گا کہ مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی کوکیسے رکوایا جائے، اگر ایٹم بموں سے لیس پاکستان اپنے ان پیاروں کی حفاظت نہیں کر سکتا جنہوں نے اس کی وحدت کو برقرار رکھنے کے لئے بے دریغ طور پر جانوں کی قربانی دی تو خاطر جمع رکھئے یہ ایٹم بم اور افغان سپاہ سالاروں کے نام پر بنائے گئے میزائل اسی طرح بے ثمرثابت ہو ں گے جیسے سابق سوویت روس کے ایٹمی اسلحے کاذخیرہ اور یوکرین میں بین البر اعظمی میزائلوں کا ڈھیر ضرورت پڑنے پر گونگا، بہرہ، اندھا ثابت ہوا تھا۔
اکہتر میں مشرقی پاکستان پر بھارت نے جارحیت کی، اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی پوری دنیا گھوم گئیں تاکہ وہ اپنی جارحیت کے لئے فضا ہموار کر سکیں۔ بھارت نے مشرقی پاکستان میں اندرونی شورش کو ہوا دینے کے لئے مکتی باہنی کھڑی کی جسے کلکتہ اورا سکے نواحی دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں میں پروان چڑھایا گیا، ا س مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی سے ا سے کھوکھلا کر دیا تو بھارتی فوج نے بھی ہلہ بول دیا اور ایک برق رفتار آپریشن کے ذریعے ڈھاکہ میں جنرل نیازی کو سرنڈر پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ میں مکتی باہنی بھارتی فوج کا دست وبازو تھی ا ور البدر اور الشمس نے پاک فوج کو ڈھال فراہم کی۔
مطیع الرحمن نظامی میری نسل سے تعلق رکھتے ہیں،یہ نسل پاکستان میں خال خال پائی جاتی ہے، زیادہ تر وہ ہیں جو بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں حصہ لینے پر تمغے پا چکے ہیں۔ہمارے جسد سیاست میں بھی اس نسل کے نمائندے موجود نہیں ہیں ، بلاول ، مریم ،حمزہ ، مونس،دانیال، عمران، مصطفی کمال، عابد شیر تو اس گھناؤنے کھیل کی ابجد سے بھی آگاہ نہیں۔
آج صبح پاکستان میں سورج طلوع ہوا ہے تو اس کی کرنوں میں بھی مطیع الرحمن نظامی کے خون کا حنائی رنگ شامل نہیں تھا، اگر ہوتا بھی تو ہم نے اپنی آنکھوں پر خود غرضی کی جو عینک چڑھا رکھی ہے، اس کی وجہ سے نظر بھی نہ آتا مگر مطیع الرحمن نظامی کے خون نے تاریخ عالم کو ضرورگلنار بنا دیا ہے۔اورا س خون میں قلم ڈبو کر کوئی مؤرخ جراتوں کا نیا شاہنامہ لکھے گا۔
ہم ایک بے حس قوم ہیں، ابھی تین ہفتے ہوئے کہ ایک مشاورت ہوئی، یہ ایک چھوٹا سا گروپ تھا۔ لگتا تھا کہ اس معاشرے میں غیرت اور حمیت کی کوئی رمق باقی ہے۔اس مشاورت کی صدارت برادرم لیاقت بلوچ کر رہے تھے ا ور عزیزم امیر العظیم اور عبد الغفار عزیز بھی اس میں موجود تھے ، کئی گھنٹوں کے مباحثے کے بعد طے ہو اکہ ایک احتجاجی میمورنڈم تحریر کیا جائے گا، جس پر ملک کی سول سوسائٹی کے دستخط لئے جائیں گے اور پھر یہ میمورنڈم بنگلہ دیش سفارت خانے، اقوا م متحدہ کے دفاتر، اور تمام غیر ملکی سفارت خانوں کو موصول کروایا جائے گا، مگر وائے حسرتا،ا س ضمن میں ایک بھی قدم نہیں بڑھایا گیا، مجھے رہ رہ کر احسا س ہوتا ہے کہ میں بھی مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی کا مجرم ہوں۔ ہم نے ا س مسئلے کو جماعت اسلامی کامسئلہ سمجھ کر بیوہ چھوڑ دیا۔اس لئے کہ البدر ، الشمس اورا سلامی چھاترو شنگھو اسی جماعت سے تعلق رکھتی تھیں۔لیاقت بلوچ کے ساتھ میٹنگ کے بعد باقی ہم سب لمبی تان کر سو گئے مگر جماعت متحرک رہی اور اپنی سی کوشش کرتی رہی۔
اور دوسری طرف پاکستان کا ایک طرفدار،بے یارو مددگار پھانسی پر جھول گیا ، ا س نے رحم کی در خواست بھی نہیں کی کہ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے پاکستان کے دفاع کا مقدس فریضہ ادا کر کے کوئی جرم نہیں کیا، یہ تو اس کی حب الوطنی کا تقاضہ تھا جو اس نے انجام دیا۔
آج میں رو رہا ہوں ، تاریخ رو رہی ہے، لیاقت بلوچ بھی کہیں رو رہے ہوں گے اور پاکستان سے پیار کرنے والے سبھی رو رہے ہوں گے مگر یہ سارارونا دھونا مطیع الرحمن کی جان نہیں بچا سکا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ڈھاکہ یاترا کے بعد خونی بلا، حسینہ واجد اور بھی شیر ہو گئی ،ا س نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاک فوج کے سینکڑوں جنگی مجرموں پر مقدمے چلائے گی، پاکستان سے ان کی حوالگی کامطالبہ کرے گی،ورنہ انہیں غیر حاضری میں پھانسی سناد ی جائے گی۔ اب کوئی دن آیا چاہتا ہے کہ ڈھاکہ میں جنرل اعظم ، ایڈمرل احسن ،جنرل یعقوب، جنرل نیازی اور جنرل ٹکا خان کو علامتی پھانسیاں دی جائیں گی۔
اور مجھے وہ دن بھی قریب نظر آتا ہے جب آج کے پاکستان کی بقا کے لئے آواز اٹھانے کی پاداش میں مجھے پھانسی دی جائے گی، میں ا س ساعت سعید کا بے تابی سے منتظر ہوں۔
مگراس دن کے طلوع ہونے سے پہلے پہلے میری ایک خواہش ہے کہ فوج نے جی ایچ کیو میں شہدا کی جو یادگار قائم کی ہے، اس پر پروفیسر غلام اعظم ، ملا عبدلقادر ، مطیع الرحمن نظامی اور صلاح الدین قادر چودھری کے نام کندہ کئے جائیں۔یہ شہدا پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑے ، یہ الگ بات ہے کہ خاکی وردی میں نہیں تھے مگر ان کاکفن تو خون رنگ ہے۔وہی خون جو پاک فوج کے شہدا کے نورانی جسموں سے چشمہ بن کر ابلتا ہے۔
اور ایک وارننگ آج کے پاکستان کے لئے۔ میں اس کاذکر پہلے بھی کئی بار کر چکا ہوں، ہم نے اپنی حفاظت کے لئے کئی بار مختلف گروہوں کو استعمال کیا اور وقت گزر جانے کے بعد انہیں ٹشو پیپر کی طرح مسل کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ خدا ہمیں اس وقت سے بچائے جب تاریخ ہمیں ٹشو پیپر کی طرح مسل کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گی۔ہم نے افغان مجاہدین کوامریکی ڈکٹیشن پر دہشت گرد کہا، ہم نے کشمیری مجاہدین کو بھارتی ڈکٹیشن پر دہشت گرد کہا، اور ہم نے مشرقی پاکستان میں قربانیاں دینے والوں کی پھانسیوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا۔
اوریہ میری وارننگ نہیں ، زرداری کی وارننگ ہے کہ لاکھوں افغانیوں کو ہم نے پناہ دی ، مگر کوئی و قت آئے گا کہ کروڑوں پاکستانیوں کو کوئی پناہ دینے والا نہیں ہو گا۔یہ بھی زرداری نے کہا کہ انہیں ہمیشہ رہنا ہے جبکہ کسی اور کو تین سال بعد چلے جانا ہے،اس کا بیٹا پاکستان کے طول و عرض میں پھنکارتا پھرتا ہے اور خود زرداری بڑے سکون سے اڑنچھو ہو گیا۔
جب تک میں نے یہ سطور قلم بند کی ہیں، مطیع الرحمن نظامی کی میت ایک خستہ سی ایمبولنس کے ذریعے اس کے گھر پہنچا دی گئی ہے اور اسے پبنہ کے آبائی قبرستان میں دفن کر دیا گیا ہے ۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔
میرے مرشد مجید نظامی نے محصور پاکستانیوں کے لئے عمر بھر جد جہد کی، آج ان کی روح تڑپ رہی ہو گی۔