خبرنامہ انٹرنیشنل

مقبوضہ کشمیر: سکول میں برقعہ پہننےپراستانی برطرف

سرینگر/لندن(آئی این پی)مقبوضہ کشمیر کے ایک سکول کی انتظامیہ نے استانی کو برقعہ پہننے پر برطرف کردیا جسکے بعد طلبا کی طرف سے سکول میں احتجاج کیا گیا۔برطانوی میڈیا کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے دہلی پبلک سکول کی انتظامیہ نے استانی کو برقعہ پہننے پر برطرف کردیا ۔سکول میں طلبا و طالبات نے جمعہ کو کلاسز کا بائیکاٹ کیا اور سکول احاطے میں انتظامیہ کے خلاف دھرنا دیا۔ طلبہ ایک استانی کو برقعہ پہننے پر ملازمت سے برطرف کیے جانے پر احتجاج کر رہے تھے۔ دہلی پبلک سکول پورے بھارت میں معیاری سکولوں کا ایک نیٹ ورک ہے جو کشمیری ماہر تعلیم اور سیاستدان ڈی پی دھر کی یاد میں قائم کیا گیا ہے۔ وادی میں اس کی کئی شاخیں ہیں۔سرینگر میں واقع ڈی پی ایس سکول میں یہ تنازعہ گزشتہ روز اسوقت کھڑا ہوگیا جب سکول کی پرنسپل کْسْم واریکو نے ایک استانی سے کہا کہ وہ کلاس میں برقعہ پہن کر نہیں جاسکتیں۔ دسویں جماعت کے ایک طالب علم داؤد احمد نے فیس بْک پر چشم دید واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’جب استانی نے مزاحمت کی تو پرنسپل نے ان سے کہا کہ وہ ملازمت یا برقعہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ اس پر استانی سکول چھوڑ کر چلی گئیں۔سکول کے چیئرمین وجے دھرکا کہنا ہے کہ وہ اس معاملہ کی تحقیقات کرینگے۔ تاہم سکول میں اس معاملہ کو لے کر کشیدگی ہے۔سہیل اقبال کے دو بچے ڈی پی ایس میں زیرتعلیم ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کے حوالے سے بتایا کہ طلبا میں پرنسپل کے برتاو پر کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ جمعہ کو جب ڈی پی ایس کی پرنسپل نے دھرنے پر بیٹھے طلبا کو قائل کرنا چاہا تو انہیں کئی مشکل سوالات کا سامنا ہوا۔بارہویں جماعت تک کے اس سکول میں دو روز سے درس و تدریس کا عمل معطل ہے۔ ہفتے کو والدین اور اساتذہ کے درمیان مجوزہ نشست بھی ملتوی کردی گئی ہے۔پانچ سال قبل بھی اس سکول میں جمعہ کی نماز کو لے کر ہنگامہ ہوا تھا۔ طلبا نے بتایا کہ سکول انتظامیہ نے جمعہ کو آدھے دن کے بعد چھٹی کو ناقابل قبول بتایا تو جمعہ کے روز طلبا نے سکول کے پلے گراؤنڈ میں باجماعت نماز کا اہتمام کیا جس پر انتظامیہ نے اعتراض کیا۔ طلبا نے مشتعل ہو کر سکول میں توڑ پھوڑ کی۔ بعد ازاں اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ باقی سکولوں کی طرح ڈی پی ایس میں بھی جمعہ کے روز دوپہر کے بعد چھٹی ہوگی۔برقعہ کی ممانعت کے بارے میں سوشل میڈیا پر کافی بحث ہو رہی ہے۔ اکثر لوگوں نے اس فیصلہ کو مذہبی معاملات میں بے جا مداخلت سے تعبیر کیا جب کہ بعض حلقے کہتے ہیں کہ سکول میں نظم و ضبط کے تقاضوں کے مطابق اگر مناسب لباس رائج کیا جاتا ہے تو اس میں حرج نہیں ہے۔