خبرنامہ انٹرنیشنل

ٹرمپ انتظامیہ نے 7 مسلم ممالک کے شہریوں پر عائدسفری پابندیوں میں رعایت کا عندیہ دیدیا

واشنگٹن (ملت + آئی این پی) امریکی محکمہ انصاف نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے 7 مسلم ممالک کے شہریوں پر عائد کی گئی سفری پابندیوں میں نرمی کرنے کا اشارہ دیدیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی محکمہ انصاف کے وکیل آگست فلینجے نے سان فرانسسکو کی اپیل کورٹ کو بتایا کہ انتظامیہ اس پابندی میں رعایت دے سکتی ہے جس سے اس سے قبل امریکا آنے والے مسافروں کو دوبارہ داخلے کی اجازت حاصل ہوسکتی ہے، جبکہ امریکا میں رہنے والے افراد کو بھی اس بات کی یقین دہانی کرائی جاسکتی ہے کہ ان کو امریکا واپس آنے کا اختیار حاصل رہے گا۔واضح رہے کہ ٹرمپ حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے متنازع ایگزیکٹیو آرڈر کی عارضی معطلی کے خلاف اپیل امریکی کورٹ آف اپیل فار نائنتھ سرکٹ میں زیر سماعت ہے۔27 جنوری کو نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو 120 دن (یعنی 4 ماہ) کے لیے معطل کردیا تھا، جب کہ ایران، عراق، شام، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں پر بھی 90 دن(یعنی 3 ماہ) تک امریکا کے ویزوں کے اجرا پر پابندی عائد کردی تھی۔؂سیٹل کی وفاقی عدالت کی جانب سے اس ایگزیکٹیو آرڈر کو معطل کرتے ہوئے واشگٹن اور منیسوٹا کی ریاستوں کی دائر کردہ اپیلوں پر سماعتوں کا آغاز کیا گیا تھا۔جبکہ ایگزیکٹیو آرڈر کی ملک بھر میں معطلی کی وجہ سے محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کو مہاجرین اور مسافروں کو امریکا میں داخلے کی اجازت دینا پڑی تھی۔5 فروری کو امریکی انتظامیہ نے کورٹ آف اپیلز سے درخواست کی کہ وہ معطلی کا حکم برقرار رکھے تاہم عدالت نے ایسا کرنے سے منع کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور واشنگٹن اور منیسوٹا کی ریاستوں کو اپنے دلائل پیش کرنے کی دعوت دی، 7 فروری سے شروع ہونے والے ان دلائل کا چند دن تک جاری رہنے کا امکان ہے۔پہلی سماعت میں جج مشل فرائیڈ لینڈ نے محکمہ انصاف کے وکیل سے دریافت کیا کہ کیا وہ امریکی صدر کے حکم کو ناقابل نظرثانی سمجھتے ہیں؟جس پر وکیل کا جواب تھا ‘ہاں’ اور عدالت کو بھی صدر کے حکم پر کوئی ‘دوسرا اندازہ’ نہیں لگانا چاہیئے۔جس پر جج ولیم کینبی نے وکیل سے استفسار کیا کہ ‘کیا صدر اپنے حکم میں صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی مسلمان کو امریکا میں داخل نہیں ہونے دیں گے؟’ایک دوسرے جج نے یہ جاننا چاہا کہ حکومت کی جانب سے ان سات مسلم ممالک کا دہشت گردی سے تعلق جوڑنے کے لیے حکومت کے پاس کیا ثبوت موجود ہیں، جبکہ رچرڈ کلفٹن کا سوال یہ تھا کہ حکومت مسافروں کی اسکریننگ کا نظام موجود ہوتے ہوئے بھی اس پابندی کا اطلاق کیوں کررہی ہے؟ججوں کے ان سوالات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کی قانونی ٹیم کو سماعت میں مزید مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔محکمہ انصاف کے وکیل کے مطابق یہ ایگزیکٹو آرڈر کانگریس کی جانب سے دیئے گئے اختیارات میں آتا ہے اور انہوں نے یہ حکم اس لیے جاری کیا کیونکہ انہیں ان سات ممالک کے مسافروں سے ‘حقیقی خطرے’ کا خدشہ تھا۔جج مشل فرائیڈ لینڈ کا کہنا تھا کہ یہ بات انہیں قائل کرنے کے لیے ناکافی ہے کہ سات ممالک کے مسافروں پر پابندی عائد کرنا ضروری تھا۔واشنگٹن کے ریاستی سالسٹر جنرل نوح جی پرسل کے مطابق یہ ایگزیکٹو آرڈز مذہبی امتیاز کی ایک شکل ہے کیونکہ اس میں ایک مخصوص مذہب کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔جس پر جج کلفٹن نے انہیں یاد دلایا کہ ‘بنیاد پرست اسلامی طبقات سے تعلق رکھنے والی دہشت گردی کی تشویش کو نظرانداز کرنا مشکل ہے’۔محکمہ انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اور منیسوٹا اس حکم نامے کو مذہبی وجہ سے چیلنج نہیں کرسکتے کیونکہ وہ اس سے متاثر نہیں ہوتے۔خیال رہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ واضح کرچکے ہیں کہ اگر اپیل کورٹ ان کے حکم کے خلاف فیصلہ سناتا ہے تو وہ سپریم کورٹ تک جائیں گے، تاہم ان کا ایسا کرنا اس حکم نامے کے اطلاق کو مزید ملتوی کرسکتا ہے کیونکہ امریکی سپریم کورٹ اس وقت 4 کنزرویٹیو اور 4 پراگریسیو ججوں میں منقسم ہے۔لہذا امریکی صدر کو سینیٹ کی جانب سے 9ویں جج نیل گوسچ کی تقرری تک کا انتظار کرنا پڑسکتا ہے، جو کہ کنزرویٹیو ہیں۔واضح رہے کہ ڈیموکریٹس کی جانب سے 9ویں جج کی تقرری میں التوا کا اشارہ دیا جاچکا ہے۔دوسری جانب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ایسے موقع پر سپریم کورٹ صدر کا ساتھ دے سکتی ہے۔