خبرنامہ انٹرنیشنل

پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیارہ، سدا بہار پاک چین دستی کا نیا مظہر

پاکستان :(اے پی پی)جدید سائنس و ٹیکنالوجی نے انسان کو اس قابل بنادیا ہے کہ وہ اپنی جگہ بیٹھ کر ہزاروں میل جنم لینے والے واقعات نہ صرف دیکھ سکے بلکہ ان کا حصّہ بھی بن جائے۔ مثال کے طور پر کابل یا وزیرستان کی فضا میں اڑنے والے امریکی ڈرون کو ہزاروں میل دور امریکا میں بیٹھے ڈرائیور چلاتے ہیں۔ اسی طرح آج اپنے سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم، جی پی ایس (گلوبل پوزیشنگ سسٹم) کی مدد سے امریکا دنیا کے چپے چپے پر نظررکھے ہوئے ہے۔ سیٹلائٹ یا مصنوعی سیارے ابتداً عسکری نقطہ نگاہ ہی سے بنائے گئے۔ گو اب وہ معاشرتی، معاشی اور تجارت وغیرہ کے شعبوں میں بھی استعمال ہورہے ہیں۔ یہی بات ڈرون پر بھی صادق آتی ہے۔ ڈرون دشمن کی جاسوسی کرنے اور اس پر میزائل یا بم پھینکنے کے لیے ایجاد ہوا۔ لیکن آج وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مستعمل ہوچکا۔ مثلاً ہوٹل میں وہ گاہک تک پیزہ پہنچاتا اور اہم تنصیبات مثلاً بجلی کی تاروں کی نگرانی کرتا ہے۔ سبھی سیٹلائٹ ریڈیائی سگنلوں (Radio Signals) کے ذریعے زمین سے احکامات لیتے اور اپنا ڈیٹا نیچے بھجواتے ہیں۔ ان پر حساس آلات (سینسر) یا طاقت ور کیمرے نصب ہوتے ہیں تاکہ زمین کی ہائی ریزولیشن تصاویر کھینچ سکیں۔ سیٹلائٹوں کی تین اقسام ہیں: غیر عسکری، عسکری اور نیم عسکری۔ نیم عسکری سیٹلائٹ سول اور ملٹری، دونوں قسم کی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ سیلائٹ نیوی گیشن سسٹم اور ریموٹ سیننگ سیٹلائٹ انہی نیم عسکری سیٹلائٹوں کی واضح مثالیں ہیں۔ سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم کی دو اقسام ہیں: عالمی اور مقامی۔ امریکا کا ’’جی پی ایس‘‘ چین کا ’’بیدو‘‘ اور یورپی یونین کا ’’گلیلیو‘‘ عالمی سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم کی مثالیں ہیں۔ مقامی سسٹم کی بہترین مثال بھارت کا ’’انڈین ریجنل نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم‘‘ ہے۔ عالمی سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم کئی سیٹلائٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی جی پی ایس 32 سیٹلائٹ رکھتا ہے۔ چین کا بیدو ابھی زیر تعمیر ہے۔ 2020ء میں تکمیل کے بعد 35 سیٹلائٹ رکھنے کے باعث دنیا کا سب سے بڑا نیوی گیشن سسٹم بن جائے گا۔ یہ عالمی سسٹم سپرپاورز ہی تشکیل دیتی ہیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر اپنے مفادات کا تحفظ کرسکیں۔ ان کے پاس یہ سسٹم کھڑے کرنے کے لیے سرمایہ ہوتا ہے اور طاقت بھی! مقامی سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم دو سے دس کے مابین مصنوعی سیارے رکھتا ہے۔ یہ مقامی سسٹم ایک ملک کی مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے موزوں ہے۔ بھارت کا مقامی سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم سات مصنوعی سیاروں پر مشتمل ہے۔ بھارتی پانچ سیارے خلا میں چھوڑ چکے، دو شاید اس سال چھوڑے جائیں گے۔ بھارتی حکومت کو کارگل جنگ کے بعد اپنا مقامی سسٹم تیار کرنے کا خیال آیا۔ 1999ء میں بھارت امریکی جی پی ایس سسٹم استعمال کررہا تھا۔ لیکن یہ سسٹم ان مجاہدین کو شناخت کرنے میں ناکام رہا جنہوں نے دن دیہاڑے کارگل کے پہاڑوں پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ وہاں مورچے بھی بنالیے۔ ان مٹھی بھر مجاہدین نے پھر بھارتی فوج کو دن میں تارے دکھلا دیئے- مجاہدین کی آمد سے بے خبر رہنے کے باعث بھارتی حکمرانوں کو احساس ہوا کہ غیر ملکی سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم پر اعتماد کرنا ممکن نہیں۔ چناں چہ انہوں نے مقامی نیوی گیشن سسٹم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی تیاری میں تقریباً 250 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔ پاکستان چھوٹا ملک ہونے کے ناتے اتنے وسائل نہیںرکھتا کہ وہ مقامی نیوی گیشن سسٹم تیار کرسکے۔ مزید برآں پاکستان کسی قسم کے استعماری عزائم بھی نہیں رکھتا، مگر وہ اپنا دفاع مضبوط سے مضبوط تر بنانے کا خواہش مند ہے۔ اسی لیے پاکستان نے 2013ء میں چین کے ’’بیدو‘‘ عالمی نیوی گیشن سسٹم کی خدمات قیمتاً حاصل کرلیں۔ چین ہمارا بااعتماد دوست ہے اور وہ امریکا کے مانند پاکستان کو نازک لمحات میں دھوکا دینے اور ساتھ چھوڑنے کی تکلیف دہ روایت بھی نہیں رکھتا۔تاہم پاک فوج کی تمنا ہے کہ پاکستان دو تین مصنوعی سیاروں پر مشتمل اپنا مقامی سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم تیار کرلے۔ یوں برصغیر پاک و ہند کی حد تک پاکستان اپنے مقامی سسٹم سے بھر پور فوائد حاصل کرسکے گا۔ قومی سسٹم بنا لینے کے فوائد یقیناً زیادہ ہیں۔ سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے زمین کے وسیع حصے پر چوبیس گھنٹے نظر رکھنا ممکن ہے۔ اس سسٹم کے مصنوعی سیارے عموماً آسمان پر 20 ہزار کلومیٹر بلندی پر چکر کھاتے ہیں۔ جبکہ ایک چھوٹے مخصوص علاقے میں یہی کام ’’ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ‘‘ انجام دیتا ہے۔ چھوٹے پیمانے پر نگرانی کرنے والا یہ مصنوعی سیارہ عموماً زمین سے ایک ہزار کلو میٹر تک بلند ہوتا ہے۔ سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم اور ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کئی مشکلات سے نمٹنے میں حکومتوں کی معاونت کرتے ہیں۔ نیز ان کی مدد سے کئی ماحولیاتی، معاشرتی اور معاشی مسائل ختم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کہیں زلزلہ یا سیلاب آجائے تو مصنوعی سیاروں کے ذریعے چند منٹ میں یہ جاننا ممکن ہے کہ کس دور دراز جگہ انسان پھنسے ہوئے ہیں اور وہاں کیونکر امداد پہنچائی جائے۔ عسکری لحاظ سے مصنوعی سیارے سرحدوں کی نگرانی کرنے اور اندرون ملک دہشت گردوں پر نظر رکھنے میں کام آتے ہیں۔ ان کی مدد سے ملک دشمن عناصر کے ٹھکانوں تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے۔ اسی لیے آج دنیا کا ہر بڑا ملک سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم یا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بنانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ ان ایجادات کی افادیت سے بھر پور استفادہ کرسکے۔ پاکستان خلا میں کمیونیکیشن سیٹلائٹ تو چھوڑ چکا، مگر کوئی بڑا ریموٹ سینسنگ مصنوعی سیارہ نہیں بھجواسکا۔ پاکستان کے خلائی تحقیقی ادارے، سپارکو نے 2001ء میں بدر اول نامی زمین کی نگرانی کرنے والا سیٹلائٹ بھجوایا تھا۔ مگر وہ ایک چھوٹا اور تجرباتی مصنوعی سیارہ تھا۔بعدازاں سپارکو نے ’’پاکستان ریموٹ سینگ سیٹلائٹ‘‘ خلا میں بھجوانے کا فیصلہ کیا مگر یہ منصوبہ پچھلے کئی برس سے عملی شکل اختیار نہیں کرسکا۔ اب حال ہی میں یہ خوش خبری ملی ہے کہ پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ چین کے تعاون سے تیار ہوکر جون 2018ء میں چھوڑا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق چین کی گریٹ وال انڈسٹری کارپوریشن اور سپارکو کے ماہرین مل کر درج بالا سیٹلائٹ تیار کریں گے۔ یاد رہے، چین میں گریٹ وال انڈسٹری کارپوریشن ہی چینی حکومت کے لیے ہر قسم کے مصنوعی سیارے تیار کرتی ہے۔ یہ مستند ادارہ تجربے کار ماہرین رکھتا ہے۔ چین کی شراکت کے بعد قوی امید ہے کہ اگلے دو برس میں وطن عزیز بھی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کا حامل ملک بن جائے گا۔ چین دراصل سائنسی بنیادوں پر ’’پاک چین اقتصادی راہداری‘‘ کے منصوبوں کی تکمیل چاہتا ہے۔ متذکرہ بالا سیٹلائٹ انہی مصنوبوں کو بخوبی مکمل کرنے میں پاکستانی و چینی ماہرین کی بھر پور مدد کرے گا۔ مزید براں پاکستان کے لیے ممکن ہوجائے گا کہ وہ ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کی مدد سے اپنی سرحدوں کی بہتر انداز میں نگرانی کرسکے۔ تب غیر ملکی جاسوسوں کے لیے پاکستان آنا کٹھن مرحلہ بن سکتا ہے۔یہ منصوبہ یقیناً پاک چین دوستی کی تابناک تاریخ میں نیا سنگ میل ثابت ہو گا۔