خبرنامہ انٹرنیشنل

چین بھارت سرحدی تنازع بڑھ گیا

چین بھارت سر

چین بھارت سرحدی تنازع بڑھ گیا

اسلام آباد /بیجنگ (ملت آن لائن) اگست 2017میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر واقع ڈوکلام کے علاقے میں بھارت اور چین میں ہونے والی جھڑپ کے بعد سے دونوں ممالک نے علاقے میں اپنی زمینی فوجی طاقت بڑھا دی ۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ علاقہ بھارت کی شمال مشرقی ریاست سکم، چین اور بھوٹان کی سرحدوں کے درمیان واقع ہے، بیجنگ اور بھوٹان دونوں اس پر ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ بھارت بھوٹان کے دعوے کی حمایت کرتا ہے۔امریکی جیوپولیٹیکل انٹیلی جنس کمپنی سٹریٹفور نے اس علاقے میں زمینی افواج کی مدد کیلئے فضائی قوت میں اضافےکی تصاویر کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔ سٹریٹفور نے چار اہم ایئر بیسوں کا جائزہ لیا جن میں دو چین اور دو انڈیا میں ڈوکلام کی حدود میں واقع ہیں۔انہوں نے کہا کہ تصاویر تصدیق کرتی ہیں کہ چین اور انڈیا دونوں بڑے پیمانے پر سٹریٹجک تعمیرات کر رہے ہیں جن میں 27 اگست کے معاہدے کے بعد تیزی آئی ہے۔سرحد کے انڈین جانب سلیگوری بگڈوگرا ایئر بیس اور ہسیمارا ایئرفورس سٹیشن ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا نے کیسے ڈوکلام کے قریب اپنی فضائی طاقت میں اضافہ کیا ہے۔سلیگوری بگڈوگرا عام طور پر ہیلی کاپٹر یونٹ کیلئے زیراستعمال رہتا ہے جبکہ ہسیمارا بیس 2017 کے اواخر میں ریٹائرڈ کر دئیے جانے والے مگ 27 ایم ایل جنگی طیاروں کا اڈہ تھا۔2017 کے وسط میں ڈوکلام بحران شروع ہونے کے بعد انڈین فضائیہ نے ان اڈوں پر سو 30 ایم کے آئی‘ جنگی طیاروں کی تعیناتی میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے جیسا کہ ان تصاویر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ایس یو 30 ایم کے آئی انڈیا کا اعلیٰ جنگی طیارہ ہے اور جلد ہی وہ جدید براہمموس کروز میزائل کے ذریعے زمینی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ سرحد کے پار چین میں سٹریٹفور کا کہنا ہے کہ لہاسا اور شگیٹسے کے نزدیک چین کی ائیربسوں میں تصاویر میں اس سے بھی زیادہ سطح کی نقل حرکت دکھائی دے رہی ہے۔اس پھیلاؤ سے شاید ظاہر ہوتا ہے کہ چینی زیادہ بڑے پیمانے پر تعمیرات کر رہے تاہم سٹریٹفور اس جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ یہ ان اڈوں پر مزید جدید سہولیات کی عکاسی بھی کر سکتی ہیں جبکہ انڈیا کے برعکس ایل اے سی کے قریب چین کے فضائیہ کے اڈوں کے فقدان کے باعث وہ ان ہوائی اڈوں پر اپنی فضائی طاقت بڑھانے پر توجہ دینے پر مجبور ہے ان دونوں فضائی اڈوں کی تصاویر سے واضح طور پر جنگی طیاروں کی موجودگی دیکھی جاسکتی ہے جس کے بارے میں سٹریٹفور کا کہنا ہے کہیہ اکتوبر میں اپنے عروج پر تھی جبکہ ہیلی کاپٹروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے ٗاس کے علاوہ کے جے 500 طیارے بھی دیکھے گئے ہیں جبکہ زمین سے فضا تک طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایچ کیو9 میزائل سسٹم اور بغیرپائلٹ کے اڑنے والے طیارے سوئر ڈریگن بھی شگیٹسے پیس ائیرپورٹ پر دیکھے گئے ہیں۔اس بحران کے اختتام کے فوراً بعد چین نے شگیٹسے اڈے پر اہم تبدیلیاں کی۔ دسمبر کے وسط تک ایک نیا رن وے تیار کیا گیا جبکہ دیگر انفراسٹریکچر میں بھی بہتری لائی گئی۔