خبرنامہ انٹرنیشنل

یونان نے مسلمانوں کے لیے اپنا سوسالہ قدیم قانون بدل دیا

یونان نے مسلمانوں کے لیے اپنا سوسالہ قدیم قانون بدل دیا

ایتھنز:(ملت آن لائن) یونانی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کرکے مسلمانوں کے لیے اپنا سو سالہ قدیم قانون بدل دیا،اب مسلمان اپنے خاندانی تنازعات کے حل کے لیے ملک اوراسلامی شرعی قوانین دونوں سے استفادہ کرسکیں گے۔ یونان نے مسلمانوں کے لیے خاندانی تنازعات میں اسلامی شرعی قانون کے استعمال کو”اختیاری“ قرار دے دیاہے۔ دائیں بازوسے تعلق رکھنے والے یونانی وزیر اعظم آلکس سیپراس نے اس بل کو ملک میں مساوات کے لیے تاریخی اقدام قرار دیا۔ اس تاریخی قانون سازی کے بعد یونانی مسلمان اپنے عائلی مسائل کے لیے اب ملکی عدالتوں سے بھی رجوع کرسکتے ہیں اور اب ان مسائل کا تصفیہ ملکی قوانین کے تحت ممکن ہے۔ یونانی مسلمان اپنے خاندانی مسائل، جیسے طلاق، بچوں کی تحویل اوروراثت کے تصفیے کے لیے فقط مفتیان سے رجوع کرسکتے تھے، انھیں ملکی قوانین سے استفادے کا اختیار نہیں تھا، جس کی وجہ سے انھیں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔اس صورت حال پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے متعدد بار آواز اٹھائی۔ یونان: پاکستانیوں‌ کے عیدمیلاد النبی جلوس پر انتہاء پسندوں‌ کا حملہ، یہ سو برس پرانا مسئلہ تھا، جس کی جڑیں جنگ عظیم اول تک جاتی ہیں، جب سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد یونان اور ترکی میں یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ یونان میں مقیم مسلمان اسلامی قوانین اور روایات تحت ہی زندگی گزاریں گے۔ واضح رہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد سرحدی پس ماندہ علاقے تھریس میں مقیم ہے۔ اس قانون سازی کے لیے مہم 67 سالہ بیوہ مسلم خاتون خدیجہ کے کیس سے شروع ہوئی تھی، جو اس قدیم قوانین کے باعث ملکی قانون سے استفادہ کرنے سے ناکام رہی تھی۔ اس قانون سازی میں ترکی نے بھی خاصی دلچسپی ظاہر کی تھی۔