خبرنامہ کشمیر

امریکی مصنف نوم چومسکی نے اپنی کتاب میں تفصیلات درج کی ہیں: مسعود خان

اسلام آباد (ملت + آئی این پی) صدرآزاد جموں وکشمیر سردار محمد مسعودخان نے کہا ہے کہ قومی موقف،نقطہ نظر، اور بیانیہ ملکی سٹریٹجک حکمت عملی اور مفادات کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیا جاتا ہے۔ امریکی مصنف نوم چومسکی نے اپنی کتاب میں اس کی تفصیلات درج کی ہیں۔ بھارت نے کشمیر کے حوالے سے اپنی قومی سلامتی ، امن و امان اور دہشت گردی کے الزام پر مبنی بیانیہ گھڑ لیا ہے۔اس کا میڈیا اسی بیانیے کو بیان کرتا اور پھیلاتا ہے۔ اس میں وہ کشمیر میں قابض افواج کے ظلم و بربریت ، انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں، اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے سوال کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا ہے۔ مغربی میڈیا میں بھارت نے اپنا اثر و رسوخ پیدا کر لیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کشمیر کی صورحال کو بھارتی عدسے سے دیکھتے ہیں۔ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز یہاں بحریہ یونیورسٹی کے سوشل سائنسز اور میڈیا کے طلباو طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صدر آزاد کشمیر جب بحریہ یونیورسٹی پہنچے تو ریکٹر ریئر ایڈمرل تنویر فیض اور شعبہ ابلاغیات کے سربراہ وحید حسین نے ان کا استقبال کیا۔صدر سردار مسعود خان نے ابلاغیات اور سوشل سائنسز کے طلباء کو بتایا کہ بھارت کے صحافی، ٹی وی اینکرز اور تجزیہ نگار کشمیر سے متعلق خبروں کو اپنے نقطۂ نظر سے گھڑتے اور بیان کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانی عوام کی اکثریت بھی مقبوضہ کشمیر کی زمینی صورتحال اور بھارتی افواج کے مظالم سے مکمل طور پر لا علم ہیں۔ یقیناًبھارت کے سب لوگ ظالم انسانی قدروں سے عاری اور وحشی نہیں ہوسکتے۔ یہ ہندوستانی میڈیا کی کارستانی ہے کہ اس نے اپنے عوام کو بھی حقائق سے بے خبر رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں میڈیا، رائے عامہ کے اداروں اور تارکین وطن کا بیانیہ صرف حق خودارادیت کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان او رآزاد کشمیر میں انگریزی اخبار کم ہیں جن کا انحصار بڑی حد تک خبر ایجنسیوں پر ہے۔بڑی خبر ایجنسیاں مقبوضہ کشمیر کی خبروں کوبھارتی نکتہ نظر یا قابض فوجیوں کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں جاری کرتی ہیں۔ اس لیے اگر آپ انٹر نیٹ پر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کوئی خبر تلاش کریں تو سب سے پہلے جو10لنکس سامنے آئین گے وہ ہندوستانی میڈیا کے ہونگے۔ یا ان کی معلومات ہندوستانی زاویہ نگاہ کے مطابق ہونگی۔صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ بھارتی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں قتل عام کو در اندازوں کے خلاف کارروائی ،بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو پیلٹ گن کے استعمال سے اندھا کرنے کو امن و امان قائم کرنے کا معاملہ ،تلاشی اور محاسرے کو دہشت گردی کی روک تھام کا نام دے کر اپنی حکومت کا بیانیہ پیش کرتا ہے۔ اس طرح حقیقت دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ 8جولائی2016کو سوشل میڈیا کے متحرک کارکن برہان وانی کی شہادت کے بعد دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت کے درمیان میڈیا کے محاذپر مقابلہ ہوا ۔ بھارتی میڈیا نے ہندوستانی فوج کے جرائم اور ظلم و بربریت کو چھپانے کی کوشش کی۔ مغربی میڈیا نے زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہ کیا۔لیکن مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں نے تمام تر پابندیوں کے باوجود زخمیوں کی تصاویر اور اپنے پیغامات کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچایا۔ جب پاکستانی میڈیا ان کا ہمنوا بنا تو ان کی آواز مغربی ذرائع ابلاغ میں بھی کسی حد تک سنی گئی۔ امریکا اور برطانیہ کے بعض اخبارات نے مقبوضہ کشمیرکی خبروں کو بھی اہمیت دی۔ لیکن ان کا انداز بھی بہت محتاط اور پاکستان بھارت توازن پر مبنی تھا۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ مغرب اور دیگر عالمی طاقتیں مئلہ کشمیر کواپنے سٹریٹجک الائنس ، تجارتی اور معاشی مفادات کی عینک سے دیکھتی ہیں،جس کی وجہ سے اس 70سالہ دیرینہ تنازعے کے اصل فریق کشمیری منظر نامے سے ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ چین پاکستان کا دوست اور حامی ہے لیکن تبت، سنکیانگ اور تائیوان کے مسائل کے باعث وہ کشمیر پر کھل کر پاکستان کا ساتھ دینے سے قاصر ہے۔ اس کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ اسے سخت مغربی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دوسری طرف مغربی ممالک اور امریکا کشمیر کی طرف متوجہ ہی نہیں۔ بھارت نے چین پاکستان اقتصادی راہ داری پر بھی اعتراض کیا ہے۔ چند برس قبل ہندوستانی وزیر خارجہ نے اپنے چینی ہم منصب کو پیشکش کی تھی کہ اگر آپ کشمیر کا مألہ نہ اٹھائیں تو ہم تبت پر خاموش رہیں گے۔صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ میڈیا کے محاذ پر ہندوستان نے سبقت حاصل کر لی ہے۔ ہندوستان کے نوجوانوں سوشل میڈیا یا نئے ذرائع ابلاغ میں مہارت حاصل کر لی اور وہ اسے سٹریٹجک بنیادوں پر ملکی مفاد میں استعمال کر رہے ہیں۔ امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں بھارتی نژاد لوگ موجود ہیں جو وہاں اثر انداز ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کے نوجوان بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ آپ صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ پاکستان بھارت تینوں جنگوں کی بنیاد مألہ کشمیر ہی تھی۔ کشمیری عوام 70سال سے جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ ان کی تحریک آزادی ضرور منزل سے ہمکنار ہوگی۔ سفارتی محاذ پر پاکستان ناکام نہیں ہوا۔70سال سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر مئلہ کشمیر کی موجودگی اور مقبوضہ کشمیر میں تحریک کا زندہ رہنا ہماری کامیابی ہے۔ سفارتکاری صرف دفتر خارجہ اور چند سفیروں کی ذمہ داری نہیں۔ یہ پوری قوم ، میڈیا اور تارکین وطن کا بھی کام ہے۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ مۂلہ کشمیر کو کشمیریوں کے نقط�ۂنظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ صدر آزاد کشمیر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مۂلہ کشمیر کے حل کے لیے سب سے زیادہ قابل عمل تجاویز اورٹھوس سفارشات اقوام متحدہ کی قرار دادیں ہی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی فارمولے سامنے آئے لیکن مئلہ کشمیر کا وہی حل قابل قبول ہوگا جو کشمیری قوم کی خواہشات کے مطابق ہوگا۔