خبرنامہ کشمیر

مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج کے ظلم و ستم کے خلاف فطری مزاحمت ہو رہی ہے

مظفرآباد (ملت + آئی این پی) صدرآزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کوئی دہشتگردی نہیں وہاں قابض بھارتی افواج کے ظلم و ستم کے خلاف فطری مزاحمت ہو رہی ہے۔ وہاں مزاحمت کرنے والے چند سو نوجوانوں کو بھارتی حکمرانوں نے دیوار کے ساتھ دھکیل کر مسلح مزاحمت پر مجبور کر دیا ہے۔ براعظم افریقہ کی بیشتر اقوام، غلامی کی تکالیف، ہتک آمیز، امتیازی سلوک، ناانصافی اور جابرانہ ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف ہیں۔ اہل جموں و کشمیر اور پاکستان مسلئے کے پَرامن حل کیلئے تیسرے فریق کی ثالثی کیلئے ہمشیہ تیار اور آمادہ ہیں۔ لیکن ہندوستان کسی کو ثالث تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث 70 سال سے کشمیر کا تنازعہ حل نہیں ہو سکا۔ باہمی مذاکرات سے مسلئے کو حل کرنے کی ہماری تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئی ہیں۔ مسلۂ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ ہی بہترین ثالث ہے جسکی اس مسلئے پر درجنوں قراردادیں موجود ہیں۔ جن میں مسلئے کا عالمی اصولوں اور جمہوری طریقہ کار کے مطابق حل تجویز کیا گیا ہے۔ لیکن بھارت نے تسلیم کرنے کے باوجود ان پر عملدرآمد نہیں کیا۔ کشمیری امن پسند قوم ہے۔ ہم ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی کی علامت نہیں بننا چاہتے۔ اِن خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز اردن، عراق، تنزانیہ، مالدیپ، بھوٹان، سری لنکا، ٹوگو، ایتھوپیا، گھانا، گمبیا، کینیا، گنی، سرالیون، فجی، یوگنڈا سے تعلق رکھنے والے انٹرنیشنل کورس آن مینجمنٹ ٹیکنیکس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ 15 مختلف ممالک کی پوسٹل سروسز سے تعلق رکھنے والے نوجوان مرد و خواتین اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) سٹاف کالج میں جاری کورس کر رہے ہیں۔ صدر سردار مسعود خان نے آزاد کشمیر سے متعلق غیر ملکی افسران کو بتایا کہ یہ ایک عبوری ریاست ہے جو تیرہ ہزار مربع کلومیٹر رقبے اور تقریبا 45 لاکھ آبادی پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک حصہ گلگت بلتستان کہلاتا ہے جبکہ بڑے حصے پر بھارت نے 70 سال سے جابرانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ آزادکشمیر دنیا کا خوبصورت ترین خطہ اور قدرتی وسائل سے مالا مال علاقہ ہے۔ ریاست کا مجموعی رقبہ تقریبا 85 ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ایک قید خانے میں تبدیل کر رکھا ہے۔ جہاں نوجوانوں کا قتل عام، خواتین کی آبرو ریزی، گرفتاریاں، محاصرے اور تشدد معمول بن چکا ہے۔ 08 جولائی2016 کو برہان وانی کی شہادت کے بعد وہاں ایک قیامت صغریٰ برپا ہے۔ کشمیریوں کی املاک اور کاروبار تباہ کئے گئے، سکول نذر آتش اور نوجوانوں کو اجتماعی طور پر بصارت سے محروم کیا گیا۔ 200 کے قریب نوجوان لڑکے لڑکیاں کلی یا جزوی طور پر نابینا ہو چکے ہیں۔ جن کی بینائی چھن گئی مگر آزادی کے خواب وہ اب بھی دیکھتے ہیں۔ عالمی برادری اور میڈیا نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی اور بھارت کے متعصب اور جانبدار میڈیا نے صورتحال پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ مقبوضہ کشمیر سے اطلاعات کی ترسیل کا نظام مفلوج کر دیا گیا۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مطابق مسلح مزاحمت کاروں کی تعداد تین سو سے زیادہ نہیں لیکن بھارت نے اَن کا مقابلہ کرنے کیلئے جدید ترین اسلحہ سے لیس 7 لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ دنیا انصاف کرے کیا تین سو غیر منظم لوگ اتنی بڑی باقاعدہ فوج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے اتنی بڑی تعداد رکھنے کا مقصد دھونس اور جبر سے قبضہ برقرار رکھنا ہے۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ آزادکشمیر کو باضابطہ طور پر سی پیک کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔ ہم خودانحصاری کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ خواہش ہے سی پیک کل پاکستان اور افریقی ممالک کے درمیان بھی تجارتی راہداری بنے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صدی افریقہ کی ہو گی۔ افریقی ممالک تیزی سے غلامی کے اثرات سے باہر نکل رہے ہیں۔ ترقی اور خوشحالی ان کا مقدر بنے گی۔ کشمیر کے وسائل کو بروئے کار لا کر پاکستان کے معاون اور مددگار بنیں گے بلکہ دنیا کے دیگر خطے بھی اس کے ثمرات سے مستفید ہوں گے