خبرنامہ کشمیر

گڈ گورننس کا قیام ممکن نہیں… جب تک کہ:‌ چیف جسٹس اعظم خان

مظفرآباد (ملت + آئی این پی) آزادجموں وکشمیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد اعظم خان نے کہا ہے کہ جب تک سیکرٹریز حکومت ،وزیراعظم اور وزراء کی جانب سے قانون کے مغائر دیئے گئے احکامات پر عملدرآمد نہیں روکتے گڈ گورننس کا قیام ممکن نہیں ۔حکومت سے مراد صرف وزیراعظم اور وزراء ہی نہیں بلکہ حکومت سے مراد سیکرٹریز ہی ہیں ۔فوری اور سستے انصاف کی فراہمی عدلیہ اور انتظامیہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے اس کے بغیر گڈ گورننس کا قیام ممکن نہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آزادکشمیر بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین سینئر قانون دان راجہ محمد حنیف ایڈووکیٹ کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا اس عشائیہ تقریب میں آزادکشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس غلام مصطفیٰ مغل ،سینئر جج سپریم کورٹ چوہدری ابراہیم ضیاء ، راجہ سعید اکرم کے علاوہ ہائی کورٹ کے ججز ایم تبسم آفتاب علوی ، اظہر سلیم بابر ، صداقت حسین راجہ ،ایڈووکیٹ جنرل رضا علی خان ، سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد ڈاکٹرز، انجینئرز ، صحافیوں ،سینئر وکلاء نے بڑی تعدادمیں شرکت کی ۔عشائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عدالت العالیہ جسٹس مصطفی مغل نے کہا کہ چیف جسٹس اعظم خان نے جب سپریم کورٹ کا چارج سنبھالا تو عدالتی حالات اتنے اچھے نہین تھے انہوں نے سپریم کورٹ پر عوام کا اعتماد بحال کیا ۔چیف جسٹس کے تعلقات کے باعث پاکستان اور آزادکشمیر کی عدلیہ کے درمیان ایک مفاہمتی یاداشت ہوئی جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان میرپور اور مظفرآباد آئے ۔ چیف جسٹس اعظم خان نے آزادکشمیر کی آئینی تاریخ کو درست سمت میں موڑا ۔ان کے فیصلوں سے جوڈیشری اور وکلاء رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے ۔عشائیہ تقریب سے میزبان راجہ محمد حنیف ایڈووکیت کے علاوہ سینئر جج سپریم کورٹ چوہدری ابراہیم ضیاء، سابق وائس چیئرمین بار کونسل راجہ سجاد ایڈووکیٹ اور راجہ ایاز ایڈووکیٹ نے بھی خطاب کیا ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آزادکشمیر چھوٹی جگہ ہے یہاں رواداری کا ماحول ہے ، ہائی کورٹ کو سپیڈی جسٹس کے لئے اہم اور فوری اقدامات اٹھانا ہونگے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہڑتالوں کا کلچر ختم کرنا ہو گا ۔سستی اور فوری انصاف کی فراہمی میں بینچ اور بار اپنا کردار ادا کریں ۔فوری انصاف کی فراہمی دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ سال کے 365دن ہوتے ہیں ۔ چھٹیاں نکال کر کام کے لئے صرف ایک سو تیس دن رہتے ہیں ۔اگر ان میں بھی ہڑتال ہو جائے تو کام کے لئے کوئی وقت نہیں بچتا اس لئے ہمیں ہڑتالوں کے کلچر کو ختم کرنا ہوگا ۔آزادجموں و کشمیر کے چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کوئی ہڑتال نہیں ۔