خبرنامہ خیبر پختونخوا

افغانستان اور پاکستان کا ایک دوسرے پر اعتماد ضروری: افتخار حسین

پشاور(آئی این پی ) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر افغانستان اور پاکستان نے ایک دوسرے پر اعتماد اور انحصار نہ کرتے ہوئے مذاکراتی عمل یا دہشت گردی کے خلاف نتیجہ خیز اقدامات کو عملی نہیں بنایا تو خطے میں امن کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔اور جاری انتہا پسندی اور دہشت گردی میں مزید اضافے کا راستہ ہموار ہو جائے گا، نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج جن افغانیوں کو ہم ذلیل اور دھکے مار کر پاکستان سے بے دخل کرنے میں مصروف ہیں ماضی میں ہماری ریاست نے امریکہ اور دیگر کے ساتھ مل کر ان کو مہاجرین رہنے کی بجائے مجاہدین میں تبدیل کیا اور اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ جنگ نے پہلے افغانستان اور پھر پاکستان کی پستون بیلٹ کو لپیٹ میں لے کر ہمیں ناقابل تلافی جانی، مالی اور انتظامی تباہی اور نقصان سے دوچار کیا ، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد بھی گڈ اور بیڈ طالبان کے فارمولے جاری رکھے گئے جو طالبان ہمارے کئے گڈ تھے وہ افغان کیلئے بیڈ قرار پائے اور اُن کے گڈ ہمارے لئے بیڈ بن گئے جبکہ دونوں بیڈ طالبان کو امریکہ نے اپنے مفادات کے تناظر میں اپنے انداز میں ڈیل کیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جنگ ختم ہونے کی بجائے پھیلتی گئی ، انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت عین مذاکراتی عمل کے دوران ملا عمر کی ہلاکت کی خبر لیک کی گئی جس سے نہ صرف مذاکرات کا عمل رک گیا بلکہ بد گمانیوں اور فاصلوں میں اضافہ بھی ہوا ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ گڈ اور بیڈ کا فرق ختم کر کے پاکستان اور افغانستان کی ریاستیں دوسروں کی بجائے ایک دوسرے پر اعتماد کر کے پہلے تو مذاکراتی عمل کا آغاز کریں اور اگر یہ نہیں ہو پا رہا یا ناکام ہو جاتا ہے تو پھر ایک مشترکہ اور فیصلہ کن آپریشن کر کے شدت پسندوں کے ساتھ وہی فارمولہ اپنایا جائے جو ہم نے سوات آپریشن میں کامیابی کے ساتھ آزمایا تھا ، انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے ساتھ آخری چانس ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے تیز ، عملی اور دو طرفہ کاروائیاں کی جائیں ورنہ جنگ کی شدت اور پھیلاؤ میں مزید اضافے کا راستہ ہموار ہو جائے گا اور سی پیک سمیت دیگر منصوبوں کا مستقبل بھی خطرے سے دو چار ہو جائے گا، نیشنل ایکشن پلان سے متعلق کئے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کے 20میں سے صرف چند ہی نکات پر عمل ہوا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ اب اعلیٰ عسکری قیادت پر نیپ کے طریقہ کار ، نتائج اور اثرات پر تحفظات کا اظہار کرتے دکھائی دے رہی ہے۔یہ اس بات کا اظہار اور اعتراف ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے ، انہوں نے کہا کہ پنجاب کی تقریباً 70کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی سے گریز کیا گیا ، مدارس میں اصلاحات نہیں کی گئیں ، فاٹا ریفارمز بھی نظر نہیں آ رہیں ، مرکزی اور صوبائی حکومت کے درمیان کوئی مفاہمت نظر نہیں آ رہی جبکہ حکومتیں صوبے اور فاٹا کے معاملات اور متاثرین کی بحالی کی کوششوں سے لاتعلقی پر مبنی رویوں پر گامزن ہیں ، ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی سے چیختے چلے آ رہے ہیں کہ پلان پر اس کی ضرورت ، روح اور تقاضوں کے مطابق عمل نہیں ہو رہا ، اگر ہماری بات مانی جاتی تو آج صورتحال بہتر ہوتے اور ہم آرمی پبلک سکول اور کوئٹہ کے سانحات سمیت لاتعداد حملوں سے بچ بھی جاتے، اب بھی وقت ہے کہ بلیم گیمز ، پراکسی وارز اور بیڈ ، گڈ کے امتیاز کے بغیر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے ورنہ جنگ میں مزید اضافہ ہوگا۔