خبرنامہ خیبر پختونخوا

طالبعلم کا قتل، رجسٹرار کے 2 نوٹی فیکیشنز نے یونیورسٹی کا کردار مشکوک بنا دیا

مردان (مانیٹرنگ ڈیسک) توہین مذہب کے الزام پر ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالبعلم مشعال خان سے متعلق یونیورسٹی کی جانب سے جاری ہونے والے 2 نوٹی فکیشنز نے یونیورسٹی کے کردار کو مشکوک بنا دیا ہے۔

مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے اسسٹنٹ رجسٹرار نے مشعال خان سمیت 3 طلبا کے بارے میں پہلا نوٹی فکیشن 13 اپریل کوجاری کیا جس دن مشعال کو قتل کیا گیا۔ نوٹی فکیشن میں مشعال خان سمیت تینوں طلباء پر توہین مذہب کے الزام کا ذکر کیا گیا جس کے بعد ایک ہجوم نے مشعال خان کو بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اسسٹنٹ رجسٹرار نے 14 اپریل کو رات گئے پہلا نوٹی فکیشن ہٹا کر دوسرا جاری کیا جس میں مشعال خان کو مرحوم ظاہر کیا گیا ہے۔

یونیورسٹی کی جانب سے دو نوٹی فکیشنز کے بعد یونیورسٹی کا کردار مشکوک ہوگیا ہے اور کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں، اگر نوٹی فکیشن مشعال کے قتل سے پہلے جاری ہوا تو کیا طلباء اسے دیکھ کر مشتعل ہوئے یا اگر نوٹی فکیشن قتل کے بعد جاری ہوا تو کیا یونیورسٹی معاملے کو کوئی اوررنگ دینا چاہتی ہے۔

دوسری جانب مشعال کے قتل کا مقدمہ ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جس میں قتل، اقدام قتل، دہشت گردی، لاش کی بے حرمتی اوراعانت جرم کی دفعات شامل کی گئی ہیں جب کہ ایف آئی آرمیں 20 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے جس میں سے 9 کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ گرفتار ملزمان میں یونیورسٹی کے 4 ملازم، طالب علم اور تحصیل کونسلر بھی شامل ہے۔ ادھر وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس نے مشعال کو بچانے کی کوشش کی لیکن ہجوم زیادہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکی۔