خبرنامہ خیبر پختونخوا

مالاکنڈ اور کوہستان میں کسٹم ایکٹ کا نفاذ خیبر پختونخوا کے موجودہ وزیراعلیٰ کی استدعا پرکیا گیا

اسلام آباد:(اے پی پی) وفاقی حکومت نے واضح کیا ہے کہ مالاکنڈ اور کوہستان میں کسٹم ایکٹ کا نفاذ خیبر پختونخوا کے موجودہ وزیراعلیٰ کی استدعا پر لگایا گیا ہے، مرکزی حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں، نظرثانی صوبائی حکومت کی درخواست پر ہی کی جا سکتی ہے جبکہ تحریک انصاف سمیت اپوزیشن جماعتوں نے کسٹم ایکٹ کے نفاذ کے خلاف قومی اسمبلی سے علامتی واک آؤٹ کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر عباد اﷲ نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے اس اقدام کے خلاف واک آؤٹ کیا۔ منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپردیر سے جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اﷲ کے مالاکنڈ ڈویژن اور ضلع کوہستان میں ٹیکس فری زون کی سہولیات سے متعلق توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکریٹری رانا محمد افضل خان نے کہا کہ کسٹم ایکٹ صدر پاکستان نے 1975ء میں لگایا تھا۔ شاید اس پر عمل درآمد میں کوئی کمی رہ گئی ہو تاہم اب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے چیئرمین ایف بی آر سے خود کہا کہ ان علاقوں میں کسٹم ایکٹ نافذ کیا جائے۔ بعد ازاں گورنر کی درخواست کے بعد جون 2015ء میں اس پر عمل درآمد کیا گیا۔ یہ صوبائی حکومت کی درخواست پر لگایا گیا ہے، اس میں مرکزی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، اس پر نظرثانی بھی صوبائی حکومت کی درخواست پر ہی کی جا سکتی ہے۔ توجہ مبذول نوٹس پر صاحبزادہ طارق اﷲ اور ڈاکٹر عباد اﷲ کے سوالات کے جواب میں پارلیمانی سیکریٹری رانا محمد افضل خان نے کہا کہ پاکستان میں سمگل گاڑیوں کے بڑے بڑے شو رومز ہیں۔ یہ عوام کا مسئلہ نہیں بلکہ چند بڑے بڑے گاڑی شو رومز مالکان کا ہے۔ اگر صوبائی حکومت ایک غیر قانونی کام کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا کہ ہمیں یقین دلایا گیا تھا کہ مالاکنڈ ڈویژن کو ٹیکس فری زون رکھا جائے گا جس نے بھی یہ سمری بھجوائی ہے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے۔ ہماری غربت، پسماندگی، دہشت گردی اور قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری ٹیکس فری زون کی سہولت برقرار رکھی جائے۔انہوں نے کہاکہ اگر مطالبے کو تسلیم نہ کیا گیا تو وہ اپنی اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر عباد اﷲ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے یہ مسئلہ پیدا کیا ہے، اس معاملے پر ہم کسی حد تک بھی جانے کے لئے تیار ہیں۔ افتخار الدین نے کہا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں شامل ریاستیں 1969ء میں پاکستان میں شامل ہوئیں ۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو قانونی شکل دینے کے لئے ایمنسٹی سکیم دی جائے۔ وزیراعظم اور وزیراعلی پختونخوا اس معاملہ پر نظرثانی کریں ورنہ ہم اسمبلی میں نہیں بیٹھیں گے، اس کے جواب میں پارلیمانی سیکریٹری رانا محمد افضل خان نے کہا کہ جب بھی ان علاقوں میں کوئی ناگہانی آفت آئی، مرکزی حکومت نے اپنا کردار ادا کیا ہے، ہم این ایف سی ایوارڈ کے تحت ایک فیصد اضافی رقم ان علاقوں کے لئے دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کو کھول کر اونٹوں پر لاد کر دشوار گذار راستوں سے سمگل کیا جاتا ہے۔ یہ عوامی مسئلہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے اگر خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کوئی نظرثانی کی درخواست لے کر آئی تو ہم غور کریں گے۔ صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا کہ ہم اس کے خلاف واک آؤٹ کریں گے۔ ڈاکٹر عباد اﷲ نے کہا کہ ہم وزیراعلیٰ کے خلاف واک آؤٹ کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن ایوان سے واک آؤٹ کر گئی۔ میاں عبدالمنان نے کہا کہ ٹیکس لگانے کی درخواست پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے کی ہے، یہ واک آؤٹ اس کے خلاف ہونا چاہئے۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ ڈاکٹر عباد اﷲ نے واضح کر دیا ہے کہ یہ واک آؤٹ وزیراعلیٰ کے خلاف ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد کو ہدایت کی کہ ناراض ارکان کو راضی کر کے ایوان میں واپس لایا جائے۔ بعد ازاں اراکین واک آؤٹ ختم کر کے واپس آ گئے۔