خبرنامہ خیبر پختونخوا

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کرپشن، معاشی تفاوت اور دوہرے تعلیمی نظام کو دہشت گردی کے محرکات قراردیدیا

لاہور (ملت + آئی این پی)وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کرپشن، معاشی تفاوت اور دوہرے تعلیمی نظام کو دہشت گردی کے محرکات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے دہشت گردی کی بنیادی وجوہات اور محرکات کے خلاف سہ پہلو پلان کے تحت موثر اقدامات کئے ہیں۔ وہ پیر کے روز نیشنل کاونٹر ٹیرارزم سنٹر کھاریاں صوبہ پنجاب میں نیشنل انٹگر یٹیڈ کاؤؤنٹر ٹیرارزم کورس اور فرنٹیئر کور خیبر پختونخوا کی استعداد کار میں اضافہ کیلئے تربیتی کورس کی کامیاب تکمیل پر منعقدہ مشترکہ گریجویشن تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل عمر فاروق درانی، کور کمانڈر 1کور، لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ، انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایوی لیشن، پاک آرمی اور دیگر سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ افسران اور متعلقہ حکام نے تقریب میں شرکت کی۔اس موقع پر تقریب کے شرکاء کو نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم سنٹر کھاریاں کے مشن، کرداراور دیگر متعلقہ پہلوؤں پر پریزینٹیشن بھی دی گئی۔ شرکاء کو ادارے کے تربیتی اہداف ، کارناموں اور تربیتی سرگرمیوں سے آگاہ کیا گیا۔ شرکاء کو بتایا گیا کہ اس وقت تک 357 یونٹس کے تحت مختلف دوست ممالک کے 213121 جوان تربیت حاصل کر چکے ہیں جبکہ ایف سی 7 کوڑ کے 596 اہلکار استعداد کار میں اضافہ کیلئے تربیت مکمل کر چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کرپشن دہشت گردی کیلئے بنیاد فراہم کرتی ہے جبکہ معاشی تفاوت معاشی ناانصافی کو جنم دیتا ہے جس سے لوگ محرومیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ دہشت گردی کی تیسری اہم وجہ امتیازی اور غیر معیاری نظام تعلیم ہے۔ امیر کیلئے سب کچھ آسانی سے میسر ہوتا ہے جبکہ غریب کیلئے کچھ نہیں ہوتا۔ غریب اور محروم عوام کا اداروں پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں شدت پسند مائنڈ سیٹ کاکام آسان ہو جاتا ہے اور وہ آسانی سے اپنے مقاصد کیلئے عوام کی ذہن سازی کرلیتے ہیں۔ نظریاتی رغبت(Ideological motivation) کے ذریعے وہ اپنے سہولت کار پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب ریاست کا اختیار نہ رہے اوروہ عوام کو تحفظ نہ دے سکے تو لوگ مجبوراً غیر قانونی تحفظ ڈھونڈتے ہیں کیونکہ ادارے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا کسی کی ایماء4 پر چلتے ہیں مگر عوام کو جب تحفظ کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تو طاقتور گروپ کے قریب ہو کر اپنی جان خلاصی کرتے ہیں یہی بنیادی محرکات ہے جس کی وجہ سے ہمارے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کا ادرہ جاتی طریقہ کار نہیں رہا تھا حکمرانوں کے اپنے مقاصد تھے اور یہ کل وقتی مسئلہ وہ توجہ حاصل نہیں کر سکا جوکرنا چاہیے تھا۔جس کے نتیجے میں پاکستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بنتا چلا گیا جب تک ان وجوہات کا تدارک نہ کیا جائے تب تک دہشت گردی کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کو ہمیشہ کیلئے جڑ سے ختم کرنے کیلئے ہمیں معاشرے کی روایات کے تناظر میں اس کی وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ جاننا ہوتا ہے کہ وہ کونسے محرکات ہیں جو دہشت گردی کیلئے موزوں ہیں۔ معاشرے میں وہ کونسی خامیاں اور کمزوریاں ہیں جن سے دہشت گرد عناصرفائدہ اْٹھاتے ہیں جو ان کے عزائم کی تکمیل میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کا کوئی بھی فرد خو د کو آگ کے بھنور میں دھکیلنے کیلئے تیار نہیں ہوتا مگر بعض اوقات حالات ایسے بنا دیئے جاتے ہیں یا بن جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی استعمال ہو جاتا ہے یا کم ازکم مزاحمت کیلئے تیار نہیں ہوتا۔پرویز خٹک نے کہا کہ جب ہم نے صوبے میں حکومت سنبھالی تو دہشت گردی، بھتہ خوری ، کرپشن ، اغواء4 کاری اپنے عروج پر تھی ادارے تباہ حال تھے۔ پولیس جیسا اہم محکمہ سیاسی مداخلت کا شکار تھا ہم نے صوبے میں دیر پا امن کے قیام اور اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے بیک وقت تین پہلوؤں Social Integration، Political Integratrion اورMilitarily integration کو اپنا مسئلہ سمجھ کر کام شروع کیا۔ کرپشن کے خاتمے ، اداروں کے استحکام اور عدل و انصاف کی بالاد ستی کیلئے اصلاحات کیں اور ریکارڈ قانون سازی کی۔ رائٹ ٹو سروسز ، رائٹ ٹو انفارمشن اور وسل بلور جیسے اہم قوانین پاس کئے۔ محکمہ پولیس کی استعداد کار میں اضافہ کیا۔ نئے پولیس ایکٹ کے ذریعے پولیس کو فرسودہ خول سے باہر نکالا۔جس میں پولیس کو قانونی طور پر سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرکے آپریشنل اور مالی خود مختاری دی۔ایک چیک اینڈ بیلنس میکنزم کے تحت اس کی ذمہ داریوں اور جواب دہی کا بھی تعین کیا۔ یہ اس لئے کیا کہ اختیار کے ساتھ ذمہ داری اور جواب دہی نہ ہو تو یہ اختیار ہمیشہ غلط استعمال ہوتا آیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن اور پراونشل سیفٹی کمیشن کو پولیس کی طرف سے ممکنہ زیادتیوں اور اختیارات سے تجاوز کی مانیٹرنگ کا اختیار دیا۔ جس پر ریجنل کمپلینٹ اتھارٹی انکوائری کی پابند ہو گی اور آئی جی پی 21دن کے اندر اس پر عمل دراآمد کرنے کے پابند ہونگے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ان کی حکومت نے صوبے کی تاریخ میں پہلا ادارہ سی ٹی ڈی قائم کیا۔ پولیس ٹریننگ سکول ، پولیس سکول آف انیوسٹی گیشن، سپیشلائز پولیس ٹریننگ سکول برائے پیشگی اطلاعاتی نظام ، ٹریفک وارڈن سسٹم ،ڈس پیوٹ ریزولوشن کونسل ، پبلک فسیلیٹیشن سنٹرز اور پولیس تک رسائی جیسے اہم ادارے قائم کئے۔ حکومت کے ان اقدامات کی وجہ سے صوبے کی پولیس ایک اہم ادارہ بن چکی ہے جبکہ ہم بتدریج کمیونٹی پولیسنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو چکا ہے اور ہم مزید بہتری کی طرف گامزن ہیں۔پولیس کی استعداد کار میں خاطر خواہ اضافہ کیا تاکہcounter Insurgency کیلئے فعال کردار ادا کرسکے۔وزیراعلیٰ نے اس موقع پر تربیت مکمل کرنے والے جوانوں کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ میں پاکستا ن آرمی کا بالعموم اور 1 کور کا بالخصوص مشکور ہوں، جن کی گراں قدر مخلصانہ کوششوں نے فرنٹئیر کور کے جوانوں کی ٹریننگ کے لئے حکمت عملی بنائی اور بعد ازاں اسکو عملی جامہ پہنایا۔ میں یقین کامل سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان آرمی کی کاوشوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا جنکی بدولت ایف سی کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے جوانوں کے تربیتی معیار کو نیشنل کا?نٹر ٹیرارزم سنٹر پبی کے اعلیٰ معیار کا منہ بولتا ثبوت قرار دیا اور اس عظیم ادارے کے قیام کے اغراض و مقاصد کو خراجِ تحسین پیش کیا جن کی اعلیٰ حکمت عملی کی بدولت ، یہ دہشت گردی کے خلاف بنیادی مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عظیم ادارہ ہم سب کے لئے باعث فخر ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہمارے دوست ممالک بھی اس تربیت گاہ سے مستفید ہو رہے ہیں۔وزیراعلیٰ نے دہشت گردی کے خلاف پاک آرمی کی کاوشوں کو سراہا اور کہا کہ پاکستان آرمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔حکومت ، پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی بنانے اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں انتہائی اہم کردار اد کر رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کی صحیح عکاسی ،آپریشن ضرب عضب کی کامیابی ہے۔ پوری قوم، قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پاکستان آرمی کی بے پناہ قربانیوں کی بدولت ، ہررنگ ونسل کے دہشت گردوں کو شکست دینے اور متاثرہ علاقوں میں حکومتی رٹ قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ قبل ازیں وزیراعلیٰ نے شرانگیز کاروائیوں کے خلاف استعمال ہونے والے مختلف ہتھکنڈوں پر مبنی مظاہرے بھی دیکھے۔