خبرنامہ خیبر پختونخوا

پولیس کو اس آپریشنل اورسخت ذہنی کیفیت والے دور سے واپس نکا لنا ہے

مردان (ملت + آئی این پی) ایس پی آپریشنز عبد الروف بابر نے کہا ہے کہ پولیس اصلاحات کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ پولیس کو اس آپریشنل اورسخت ذہنی کیفیت والے دور سے واپس نکالے جو دو ہزار چھ سات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے ان کی شناخت بن چکی تھی۔ کیونکہ اس دور سے لیکر دو ہزار پندرہ تک پولیس بحالت مجبوری صرف ایک آپریشنل فورس بن گئی تھی۔جس کیوجہ سے ان کی باقی ذمہ داریوں کا حرج ہورہا تھا۔وہ جمعرات کو مردان پریس کلب میں سی آر ایس ایس کے زیر اہتمام اولسی پولیس پبلک فورم سے خطاب کررہے تھے۔ سی آر ایس ایس کے زیر اہتمام اولسی پولیس پراجیکٹ یو ایس ایڈ سمال گرانٹ اور ایمبیسیڈرز فنڈ کے تعاون سے مردان، پشاور اور چارسدہ میں رو بہ عمل لایا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد عوام اور پولیس کے درمیان فاصلے کو کم کرکے اعتماد کو بحال کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے مردان پشاور اور چاسدہ میں ہر ہفتے ریڈیو پروگرامز کے ساتھ ساتھ مشاورتی اجلاس اور پبلک فورم کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ عوام کو پولیس میں کئے گئے اصلاحات سے آگاہ کیا جاسکے۔ اور عوام میں پولیس سے خوف کو کم کرکے ایک دوسرے سے تعاون پر آمادہ کیا جاسکے۔ ایس پی آپریشن مردان نے پبلک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ تین سال کے دوران پولیس میں تین سطحی اصلاحات کی گئی ہیں۔ سٹرکچرل اصلاحات میں ان سروس ٹریننگ کے لئے سات سپیشلائزڈ سکولوں کا قیام اہم ترین قدم ہے انھوں نے کہا کہ ایک وقت میں ملزموں کو سزایابی کی شرح صرف ایک فیصد رہ گئی تھی یعنی زیادہ تر ملزم کمزور انوسٹی گیشن اور بعض دوسرے مسائل کیوجہ سے عدالتوں سے رہا ہوجاتے۔ مگر جدید تربیت اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث عدالتوں سے ملزموں کی سزایابی کی شرح بڑھ کر سترہ فیصد ہوگئی ہے جو بڑی کامیابی ہے۔ انھوں نے پولیس میں میرٹ کی بالادستی، سیاسی اثرو رسوخ کے خاتمے سمیت جدید اسلحے و آلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسی کی بدولت دہشت گردی سمیت جرائم پر قابو پانے میں مدد مل رہی ہیفنکشنل اصلاحات کے ذیل میں ایس پی آپریشن عبد الروف بابر نے بتایا کہ پولیس اسسٹنس لائن کے زریعے عوام کو ون ونڈو سہولیات فراہم کی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کمپیوٹرائزڈ لائسنس کے اجرا ،آن لائن ایف آئی آر اور تیرہ لاکھ ایف آئی آرز کی ڈیجیٹیلائزیشن نے عوام کے ساتھ ساتھ پولیس کا کام بھی آسان بنا دیا ہے عبد الروف بابرنے ڈی آر سی کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ یہ انتہائی کامیاب قدم ہے جہاں ایک ایک ڈی آر سی سالانہ آٹھ سو سے ایک ہزار کیسز حل کر رہی ہے جو پولیس اور عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مضبوط ڈیپارٹمنٹل، جوڈیشل اور پبلک اکاوٹیبیلیٹی نظام سے پولیس پر عوام کا اعتماد بحال ہورہا ہے۔ انھوں نے منشیات کی بعض اقسام کی روک تھام سمیت ٹریفک نظام میں مزید قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے تحصیل نائب ناظم مشتاق سیماب نے کہا کہ پانچ سال پہلے پولیس خوف اور دہشت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ مگر آج کی پولیس عوام دوست اور پیشہ ور پولیس فورس کے طور پر سامنے آرہی ہے۔ اور بحیثت ایک منتخب نمائندہ میں یہ بات کرتے ہوئے فخر محسوس کر رہا ہوں کہ پختونخوا پولیس نے ایک ادارے کے طور پر ترقی کی ہے۔ آج پولیس اسسٹنٹس لائن ، ماڈل پولیس سٹیشنشز،ا ور پولیس ایکسز سروسز کے دفاتر سہولیات کے لحاظ سے جدید ملٹی نییشنل کمپنیوں کے دفاتر سے کم نہیں جس کی وجہ سے پولیس کا مورال بلند اور کارکردگی بہترہورہی ہے پروگرام کے آخر میں مختلف سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے عبد الروف بابر نے کہا کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ایس ایچ او سے لیکر آئی جی پولیس تک تمام افسران نہ صرف ایک ایس ایم ایس اور ٹیلی فون کال کی دوری پرہے بلکہ وہ عوام کو جوابدہ بھی ہے۔ اس موقع پر سی آر ایس ایس کے مصطفی ملک اور شمس مومند نے اولسی پولیس پراجیکٹ کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا بنیادی مقصد عوام اور پولیس کے درمیان فاصلوں کو مٹانا اور اعتماد کو بڑھانا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے اس قسم کے فورمز کے ساتھ ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز بھی نشر کئے جا رہے ہیں تاکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگاہ کیا جاسکے۔