سیاسی پابندیاں آنے سے ’’صحافت‘‘ بند ہوگیا اور میں نے ’’نوائے وقت‘‘ کا رخ کیا۔ ان دنوں بھی اشفاق صاحب نے میری بڑی ہمت بندھائی۔ وہ گفتگو کے آخر میں ہمیشہ کہتے ہمت نہ ہارنا ڈٹے رہو‘ پریشان نہ ہونا مشکلات آتی ہیں۔ آزمائشیں بھی آئیں گی‘ بس دل بڑا رکھنا۔ میں ’’نوائے وقت‘‘ کا میگزین ایڈیٹر تھا کہ ایک دن انہوں نے مجھے بطور خاص بلایا اور کہا اخباروں کے رنگین ایڈیشنوں کا مواد کمزور ہوتا ہے لگتا ہے زیادہ محنت نیوز کے صفحات پر کی جاتی ہے۔ میں نے اثبات میں جواب دیا اور بتایا کہ کم و بیش سارے اخبارات میں ہر کلر ایڈیشن کا ایک انچارج ہوتا ہے اور بس وہی سارا صفحہ اکیلے بناتا ہے۔ اشفاق صاحب نے مجھے بہت سے مشورے دیئے‘ نئے عنوانات بتائے اور کہنے لگے اردو میں کچھ نئی چیزیں لے کر آؤ پھر بولے خلق خدا کی بھلائی کے لئے آپ کے اخبار میں کوئی جگہ ہونی چاہئے۔ مارشل لا کا زمانہ ہے‘ گھٹن بہت زیادہ ہے پھر اچانک ان کی زبان سے نکلا ضیا! تم شکایت سیل کے نام سے ہفتے میں ایک رنگین ایڈیشن بناؤ اور چھ دن تک پاکستان بھر کے مختلف شہروں سے موصول ہونے والے خطوط میں سے اہم مسائل جو اجتماعی ہوں انہیں چھاپو اور صرف چھاپنا نہیں ہے صفحے کے نیچے ایک باکس بناؤ جس میں ہر ہفتے یہ درج ہو کہ جو مسئلے آپ نے چھاپے تھے ان پر کیا ایکشن ہوا اور اگر ایکشن ہوا ہے تو اس کی تفصیل لکھو۔
شاید ہی کسی قاری کو اس بات کا علم ہو کہ شکایت سیل کا بنیادی خیال‘ لے آؤٹ‘ عنوان اور طریقہ کار اشفاق صاحب کا دیا ہوا تھا۔ میں نے ’’نوائے وقت‘‘ میں کئی سال تک رنگین ایڈیشن چھاپا۔ بہت سے لوگوں کے مسئلے حل ہوئے۔ صدر ضیاء الحق کی طرف سے سرکاری طور پر اس صفحے پر پسندیدگی کا اظہار مجھے ان کے خط کی شکل میں ملا لیکن اصل ایوارڈ ان لوگوں کی طرف سے تھا جو دور دراز سے سفر طے کرکے لاہور پہنچتے اور دفتر میں مجھے ملنے آتے۔ ان کی زبان پر میرے لئے اور اخبار کے لئے دعائیں ہوتی تھیں۔ اکثر لوگ وفور جذبات سے رو پڑتے تھے۔ وہ اچھا زمانہ تھا۔ اخبار میں لکھنے کا اثر ہوتا تھا۔ افسر توجہ دیتے تھے۔ اہلکار خوف کھاتے تھے۔ اب تو ہر افسر کو معلوم ہے کہ وہ کس کی شہ پر نوکری کررہا ہے۔ اس کا تقرر ترقی اور تبادلہ کس کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا اخبار میں مسئلہ چھپنے کی وہ اہمیت نہیں رہی جو کبھی ہوتی تھی۔
’’جنگ‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘کے بعد پاکستان اور پھر ’’خبریں‘‘ میرا سفر جاری رہا۔ ’’خبریں‘‘ کے آغاز میں‘ میں نے وہ غلطی نہیں کی جو کہانی شروع کرتے وقت کی تھی۔ میں اشفاق صاحب کے پاس تین دن جاتا رہا اور ان کا بڑا وقت ضائع کیا۔ نئے اخبار میں وہ کیا خوبی ہوسکتی ہے کہ وہ زیادہ صفحات زیادہ رنگ بڑے ناموں اور مستحکم مالی پوزیشن والے اخبارات میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ اشفاق صاحب نے میرے ساتھ مل کر بہت سوچ بچار کی ان کا کہنا تھا کہ ایک تو شکایت سیل والے کامیاب تجربے کو دہراؤ اور اخبار کے ذریعے دکھی اور مظلوم لوگوں کو انصاف دلواؤ۔ دوسرے ان کا مشورہ تھا کہ شروع میں بڑے لکھنے والے آپ کو نہیں ملیں گے۔ کیونکہ آپ اتنا معاوضہ نہیں دے سکیں گے۔ آپ نئے لکھنے والے پیدا کرو‘ چار چھ ماہ میں جس میں جان ہوگی وہ اپنی ریڈرشپ خود بنا لے گا۔ تیسرا وہ پرانے نیم خواندہ اور کم تعلیم یافتہ لیکن تجربے کی بنیاد پر اخباروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے بجائے فریش اور نئے تعلم یافتہ نوجوانوں کے حق میں تھے۔ ’’جنگ‘‘ ’’پاکستان‘‘ اور ’’خبریں‘‘ میں ‘ میں نے سینکڑوں نئے کارکن روشناس کروائے لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے اصرار کیا کہ آپ بھی ’’خبریں‘‘کے لئے لکھیں۔ اشفاق صاحب نے کہا میں نے آج تک کبھی کسی اخبار میں کالم نہیں لکھا مگر تمہیں ناراض بھی نہیں کرسکتا۔ لہٰذا مجھے کچھ وقت دو ’’خبریں‘‘ شروع ہوگیا اور میں بار بار انہیں یاد دلاتا رہا حتیٰ کہ ایک دن وہ مجبور ہوگئے۔ ان یادداشتوں پر مبنی سلسلہ مضامین کے آخر میں‘ میں قارئین کو اس کالم سے بھی ضرور متعارف کرواؤں گا جو ’’خبریں‘‘ کی فائل میں آج بھی محفوظ ہے۔ میری معلومات کے مطابق یہ پہلا اور آخری کالم ہے جو اشفاق صاحب نے لکھا۔
پھر میں نے ’’جنگ‘‘ ’’نوائے وقت‘‘ ’’پاکستان‘‘ اور ’’خبریں‘‘ میں چھپنے والے منتخب کالموں کا مجموعہ ’’جمعہ بخیر‘‘ کتابی شکل میں شائع کیا۔ اس کا سرورق معروف سیاستدان‘ دانشور اور مصور حنیف رامے نے بنایا تھا۔ کوثر نیازی نے اس کتاب کے لئے اپنا مضمون سخت جان آدمی بھیجا۔ عطاء الحق قاسمی کی تحریر پر ’’ملامتی ضیا شاہد اس میں شامل ہے اور حسن نثار کا کالم ’’زخم زہر اور زندگی‘‘بھی کتاب میں موجود ہے۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اشفاق احمد صاحب کا وہ فلیپ جو ’’جمعہ بخیر‘‘ کے ٹائٹل کے اندرونی صفحے پر چھپا یہاں نقل کیا جائے۔
اشفاق صاحب لکھتے ہیں: ہمارے یہاں کالم لکھنے کا ڈھب ذرا مختلف ہے۔ اس میں جب تک طنز اور استہزاء کی پھلجھڑیاں اور لغت و ٹھیکار کی چکوندریں نہ ہوں نہ لکھنے والے کو مزا آتا ہے اور نہ پڑھنے والے کا دل پشوری ہوتا ہے۔
’’جمعہ بخیر‘‘ ہمارے متداول کالموں سے ہٹ کر ایک مختلف اور منفرد تحریر ہے۔ اس کا سب سے بڑا طلسم عنوان کا انتخاب‘ عبارت کی ترتیب اور موضوع کی برداشت ہے۔ ’’جمعہ بخیر‘‘ کے ایک چھوٹے سے کالم کا ایک مختصر سا سفر آپ کو ایک بہت ہی بڑے دشت میں لے جاکر حیرت کی ندا سے آشنا کرتا ہے اور پھر یہ ندائے حیرت کے آئینوں سے دور تک اور دیر تک جھلکتی رہتی ہے۔
یہ ایسے خوشگوار نرم و نازک دکھ بھرے‘ پریشان کن اور پشیمان کن کالم ہیں کہ ضیاشاہد کا چہرہ مہرہ دیکھ کر اس کے انداز تکلم و تخاطب کو جان کر یقین نہیں آتا کہ یہ تحریریں اس کی ہیں لیکن مالی لوگ بتاتے ہیں کہ کرخت اور کڑ بڑے درختوں کے اندر سے ہمیشہ اور کومل کلیاں پیدا ہوا کرتی ہیں۔
قارئین کالم آپ نے پڑھا ۔ الفاظ کا انتخاب اشفاق احمد سے زیادہ بہتر اور کوئی نہیں کرسکتا۔ اتنا خوبصورت فلیپ انہوں نے لکھا جو طول طویل مضامین اور سیمی دیباچوں اور تعارفی کلمات سب پر بازی لے گیا۔ میرے لئے ہمیشہ یہ ایک اعزاز رہا ہے کہ انہوں نے میرے اخبار کے لئے خصوصی کالم تحریر کیا اور میری کتاب کا اتنا خوبصورت فلیپ لکھا اللہ ان کے درجات بلند کرے۔
اشفاق صاحب کی کتابیں اور ڈرامے بے شمار ہیں تاہم ان میں سے چند ایک کا ذکر لازمی ہے۔ 1953ء میں انہوں نے ’’گڈریا‘‘ لکھ کر ادب کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ جلے پھول ‘ ایک محبت سو افسانے‘ دونوں کتابیں بہت مقبول ہوئیں۔ سفر در سفر ایک سفر نامہ ہے جسے میں نے بے شمار مرتبہ پڑھا اور ہر مرتبہ اس نے مجھے نئی سوچ سے ہمکنار کیا۔ بظاہر یہ سفر پاکستان کے شمالی علاقوں کا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ سفر چلتا ہے جو اشفاق صاحب کے اندر جاری و ساری تھا۔
(جاری ہے)
میں نے یہ سطریں لکھی تھیں کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف معروف کالم نگار اور وفاقی وزیر برادرم عرفان صدیقی تھے۔ انہوں نے میرے قسط وار مشاہداتی کالموں کی تعریف کی اور کہا میں نے پی اے سے کہا ہے کہ روزانہ ان یادداشتوں کو محفوظ کرلیا کریں۔ میں پاکستان سے باہر اپنے بیٹے کو بھجواؤں گا جسے پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ پھر انہوں نے اشفاق صاحب کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے میری یہ بات سن کر سفر در سفر میں بار بار پڑھتا ہوں اپنی ایک دستخط شدہ کتاب بھیجی اور فون پر مجھ سے کہا کہ میری باقی کتابیں پڑھنے والوں کے لئے ہیں جبکہ سفر در سفر لکھنے والوں کے لئے ہیں۔ بہرحال اشفاق صاحب اپنی یادداشتوں سے گزرے ہوئے کرداروں کو سامنے لاتے ہیں اور پھر ان کے اندر سفر کرکے ان کی خوشیوں اور ان کے دکھوں کو آشکار کرتے ہیں۔ میں پہلے ایک محبت سو افسانے کے نام سے ٹی وی سیریز کا ذکر کر چکا ہوں جو مجھے کبھی نہیں بھولتیں۔ تلقین شاہ آپ کو اب تک یاد ہو گا جس کی ریکارڈنگ بھی ان کے گھر پر ہوتی تھی۔ انہوں نے چند کتابوں کے اُردو تراجم بھی کئے جن میں ارنسٹ ہمنگوے کی ’’فیئر ویل ٹو آرمز‘‘ کا ترجمہ وداع جنگ ہے۔ چنگیز خان کے ’’سنہرے شاہین‘‘ اور ’’دوسروں سے نبھاہ‘‘ کا بھی انہوں نے انگریزی سے ترجمہ کیا۔ مہمان سرائے، شہر آرزو، طوطا کہانی، اُچے بُرج لہور دے جیسے ڈراموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک فیچر فلم بھی بنائی۔ دھوپ اور سائے اس کا نام تھا اس کے گیت منیر نیازی نے لکھے اور موسیقی طفیل نیازی نے ترتیب دی تھی۔ قوی خان اس کے ہیرو تھے۔ فلم بُری طرح ناکام ہوئی میں ہمیشہ اشفاق صاحب کو چھیڑنے کے لئے کہتا تھا ایک اور فلم بنائیں۔ وہ کہتے میں پہلی سے ہی توبہ کر چکا ہوں۔
آخری برسوں میں انہوں نے ٹیلی ویژن پر ’’بابا‘‘ بن کر زاویہ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا جو انتہائی مقبول ہوا۔ زاویہ کے پروگراموں کو تحریری شکل میں زاویہ ون زاویہ ٹو اور زاویہ تھری تین کتابیں بنائی گئیں۔ غیر مطبوعہ افسانے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ناولٹ مہمان، بہار اور کھیل تماشا ہیں۔ طنز و مزاح میں ’’قلم کار‘‘ اور ’’گرما گرم‘‘ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ پڑاؤ آشیانے اور بندۂ زمانہ تلقین کے پروگراموں پر مشتمل ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے زاویہ کے 90 سے زیادہ پروگرام ہوئے اور آج بھی شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔
اشفاق صاحب قدرت اللہ شہاب کے انتہائی مداح تھے اور انہیں روحانی طور پر بہت بڑی ہستی سمجھتے تھے، شہاب صاحب ہمارے گھر میں بھی پسندیدہ ترین دانشور اور مصنف سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی کتابیں بالخصوص شہاب نامہ ہمارے ہاں اتنی پڑھی گئی کہ میری بیٹی ڈاکٹر نوشین نے اپنے بھائی عدنان شاہد مرحوم کا جو سکیچ کتاب ہنستا کھیلتا میں لکھا ہے اس میں تفصیل سے یہ تذکرہ موجود ہے کہ دونوں بہن بھائی کسی طرح سبقاً سبقاً شہاب نامہ پڑھتے تھے خاص طور پر اس کتاب کا وہ باب جس کا عنوان 90 ہے اور جس میں روحانیات اور تصوف کے حوالے سے انتہائی دلچسپ مشاہدات بیان کئے گئے ہیں۔ شہاب صاحب کے بطور مہمان اشفاق احمد اور بانوقدسیہ کے گھر پر قیام کے واقعات چھپ چکے ہیں اور دونوں میاں بیوی نے ان پر بہت لکھا ہے۔ مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ شہاب صاحب کے پاؤں کے ناخن بڑھ جاتے تھے تو ایک دوسرے پر چڑھنے کے باعث انہیں کاٹنے میں بہت تکلیف ہوتی تھی۔ اشفاق صاحب نے ان کے لئے خصوصی اوزار منگوائے اور وہ ہمیشہ ان کے پاؤں کے ناخن خود کاٹتے تھے۔ یہ شہاب صاحب کے دوسرے مداح ہی نہیں بلکہ ’’مرید‘‘ ممتاز مفتی تھے جن کے بیٹے عکسی مفتی آج کل اسلام آباد میں ہیں علی پور کا ’’ایلی‘‘ لکھ کر ممتاز مفتی نے عالمگیر شہرت پائی، تاہم مجھے ان کی کتاب لبیک زیادہ پسند آئی جو سفر نامہ حج ہے۔ خاص طور پر اس کا وہ حصہ جس میں ممتاز مفتی حج کے دوران شیطانوں کو کنکریاں مارتے وقت یہ کہتے ہیں کہ یہ سب سے بڑا شیطان تو خود میرے اندر ہے اسے کنکر کیسے مارا جائے۔
اشفاق صاحب کے آخری دنوں میں ایک بار میں ان سے ملنے گیا تھا ان کی طبیعت کافی خراب تھی وہ بڑی مشکل سے ان تک پہنچنے کی اجازت ملی کیونکہ ڈاکٹروں کے علاوہ گھر والوں نے بھی منع کر رکھا تھا۔ میں نے صرف چند منٹ کے لئے کہا تھا اس لئے فوراً ہی باہر آ گیا۔ وہ ابھی تک گھر تھے لیکن بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور ان کی آنکھیں بند تھیں۔ میں کرسی سے اٹھ کر ان کے پاس گیا اور میں نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا، بس یہی میری طرف سے انہیں آخری سلام تھا لیکن پھر وہی اتفاق کہ میرے گھر کے بالکل سامنے کرکٹ کے وسیع میدان ہیں اور ان کے دوسرے کنارے انٹرنیشنل مارکیٹ کے پاس سائرہ میموریل ہسپتال ہے۔ اشفاق احمد صاحب کو آخری دنوں میں اس ہسپتال میں لایا گیا۔ بانو قدسیہ نے اپنی کتاب ’’بابا صاحبا‘‘ میں اس کی تفصیل لکھی ہے۔ اشفاق صاحب کو رسولی کی شکائت تھی جو کینسر میں تبدیل ہو گئی۔ سات ستمبر 2004ء کو وہ جگر کی اسی تکلیف کی وجہ سے دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی کہانیوں، ڈراموں‘ ٹی وی سیریز اور تلقین شاہ کے روپ میں صدا کاری ہمیشہ یاد رہے گی لیکن سب سے زیادہ ناقابل فراموش زاویہ کے نام سے ان کی تین جلدوں پر مشتمل موثر اور دلنشین لہجے میں خیالات اور مشاہدات ہیں جو بے شمار علم و معرفت کے شیدائیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے رہیں گے۔
اشفاق صاحب نے بھرپور زندگی گزاری، علم و ادب، ریڈیو، ٹی وی ‘سیاست‘ حالاتِ حاضرہ اور آخر میں ایک دانشور کی حیثیت سے پریشان حال اور مضطرب روحوں کی تسکین کا سامان زاویہ۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ‘ملک سے باہر بہت دورے کئے ‘کئی سال اٹلی میں بھی رہے۔ براڈ کاسٹنگ کی‘ امریکہ سے باقاعدہ تربیت بھی حاصل کی۔ مرکزی اُردو بورڈ بھی چلایا۔ تلقین شاہ بھی لکھا اور صدا بندی کروائی۔ اس پروگرام کے لئے اپنی آواز دی۔ تلقین شاہ حسرت تعمیر کے نام سے بھی چلتا رہا۔ اس کا کردار‘ زبان‘ لہجہ‘ اندازِ گفتگو ‘طنز جس کے اندر مزاح کا پہلو نمایاں تھا نے برسوں تک لوگوں کو مسحور کئے رکھا۔ اس کردار میں آپ کو ہماری اپنی خصلتوں کی جھلک ملے گی یوں لگتا تھا انہوں نے بہت سے لوگوں کی طبیعتوں میں سے تھوڑا تھوڑا مواد لے کر ایک ایسا کردار تراشا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کے اندر موجود ہے۔ گویا میں بھی تلقین شاہ ہوں اور آپ بھی تلقین شاہ ہیں۔ انہیں دو صدارتی ایوارڈ بھی ملے۔ ستارۂ امتیاز، اور تمغہ حسن کارکردگی۔ لیکن ان کا اصل ایوارڈ وہ بے پناہ مقبولیت تھی جو انہیں اپنی زندگی میں لوگوں سے ملی۔ انہوں نے محبت کی اور اس میں کامیاب رہے اگرچہ اس کی قیمت انہیں گھر چھوڑنے کی شکل میں ادا کرنی پڑی۔ بانو قدسیہ لکھتی ہیں کہ وہ ایم اے اُردو کرنے کے بعد گلوکارہ بننا چاہتی تھیں۔ اشفاق صاحب نے انہیں یکسر منع نہیں کیا لیکن باتوں باتوں میں لکھنے کی طرف مائل کیا۔
بانو قدسیہ کی کتابوں کے نام پڑھئے اور دیکھئے انہوں نے زندگی میں کتنا لکھا ہے۔
-1
حاصل گھاٹ
-2
توجہ کی طالب
-3
ناقابل ذکر
-4
چہار چمن
-5
دوسرا دروازہ
-6
امربیل
-7
بازگشت
-8
مردابریشم
-9
سامان وجود
-10
شہر بے مثال
-11
ایک دن
-12
خستہ ہاتھ کی گھاس
-13
پردا
-14
موم کی گلیاں
-15
کچھ اور نہیں
-16
آدھی بات
-17
دست ہدیہ
-18
آتش زہرپا
-19
تماثیل
-20
سدراں
-21
آسے پاسے
-22
دوسرا قدم
-23
سورج مکھی
-24
حوا کے نام
-25
پیا نام کا دیا
-26
لگن اپنی اپنی
-27
پھراچانک یوں ہوا
-28
چھوٹا شہربڑے لوگ
-29
راہ کارواں
-30
ہجرتوں کے درمیان
اشفاق احمد اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ صرف ان کی یادیں باقی ہیں۔ ان کی تحریریں ‘ڈرامے ‘ریڈیو کے پروگرام‘ ٹی وی کے پروگرام موجود ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ساری زندگی ہم میاں بیوی غیر محسوس طور پر اور بغیر اعلان کئے ان سے راہنمائی لیتے رہے۔ لاہور بہت بڑا شہر ہے جس میں کروڑ سے زیادہ آبادی ہے لیکن یوں تلاش کرنے نکلو تو ڈھنگ کا بندہ دور دور تک نہیں ملتا۔ اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ کے علاوہ میں زندگی بھر آواز دوست، سفر نصیب اور لوح ایام کے فاضل مصنف مختار مسعود کا شیدائی رہا۔ وہ سابق بیورو کریٹ ہیں، کمشنر کے بعد سیکرٹری بنے پھر آر سی ڈی کے سلسلے میں تہران گئے۔ کم لکھا لیکن پڑھنے والوں کو بہت پائے کی تحریریں دیں۔ پچھلے دنوں یہ سن کر دکھ ہوا کہ ان کی طبیعت بھی ناساز رہتی ہے۔ میں ان کی صحت اور درازئ عمر کی دُعا کے ساتھ قارئین سے اجازت چاہتا ہوں۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے بارے میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس شخص نے ان کی کتابیں نہیں پڑھیں‘ ڈرامے نہیں دیکھے، اشفاق صاحب کے لیکچر نہیں سنے وہ بدنصیب ہے۔
اشفاق احمد کی کتابیں درج ذیل ہیں۔
-1
بابا صاحبا
-2
زاویہ3,2,1
-3
گڈریا
-4
ایک محبت سو افسانے
-5
وداع جنگ
-6
ایک ہی بولی
-7
صبحائے فسانے
-8
طوطا کہانی
-9
بند گلی
-10
طلسم ہوش افزا
-11
اور ڈرامے
-12
ننگے پاؤں
-13
مہمان سرائے
-14
من چلے کا سودا
-15
سفر در سفر
-16
اُچے بُرج لہور دے
-17
ٹاہلی تھلے
-18
حسرت تعمیر
-19
جنگ بجنگ
-20
سفر متیا
-21
ایک محبت سو ڈرامے
-22
حیرت کدہ
-23
شالا کوٹ
-24
کھیل تماشا
-25
گلدان
-26
کھٹیا وٹیا
-27
دھینگا مشتی
-28
شورا شوری
-29
ڈھنڈورا
-30
عرض مصنف
-31
شہرآرزو
بمبوزل کا خفیہ خط
اشفاق احمد
سارہ اینڈرسن کے نام
مجھے لاہور آئے ایک مہینے سے اوپرہو چکا ہے اور میں یہاں کے تہذیبی، مذہبی، اقتصادی، سیاسی اور علمی جغرافیے سے کافی حد تک واقف ہو چکا ہوں۔ لوگ یہاں کے خوش فکر، ملنسار، دبنگ اور طرح دار ہیں۔ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور اپنے سے بڑا کسی کو نہیں سمجھتے۔ ہر ایک کے ساتھ ہنس بول کر ملتے ہیں اور دوسروں کے برتے پر خوش و خرم رہتے ہیں۔ اپنا نقصان نہیں کرتے اور دوسروں کے ضرر پر رنجیدہ نہیں ہوتے۔ بڑے زندہ دل قسم کے لوگ ہیں۔ میلے ٹھیلوں اور جلسے جلوسوں کے شوقین ہیں، حکومتوں سے نفرت کرتے ہیں، ہلے گلے کے عاشق ہیں اس لئے ضبط و نظم کو ناپسند کرتے ہیں۔ اچھا کھاتے اور اچھا پہنتے ہیں اور اپنے ملک سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں میرا مشن کسی حد تک مشکل ہو گیا ہے لیکن میں اپنی سی کوشش کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں یہاں بھی اسی طرح کامیاب ہوں گا جس طرح اپنے پچھلے مشنوں میں ہوا تھا۔ افغانستان میں میرے مشن کی ناکامی کی وجہ میری کمزور پلاننگ نہیں تھی بلکہ وہاں کے لوگوں کی مغربی تعلیم سے بے بہرگی تھی، وہ ایسے ان گھڑ، ان ایجوکیٹڈ، ناتراشیدہ اور بے خوف سے لوگ ہیں کہ ابھی تک ان کی سرزمین پر احساس کمتری کی بیماری وارد ہی نہیں ہوئی۔ ہماری ساری برتری اور سپیریرٹی کو وہ ’’چہ خوب‘‘ سا کہہ کر گزر جاتے ہیں اور اس کے عشق میں مبتلا نہیں ہوتے۔ لوچانا آندرینی نے البتہ کابل کی تعلیم یافتہ لڑکیوں کو اپنی سیٹی پر لگا لیا تھا اور ان سے اسلام اور پسماندہ افغان معاشرے پر چند نعرے لگوائے تھے لیکن مجھ سے تین سال کی مدت میں یہ بھی نہ ہو سکا۔ روس نواز نوجوانوں کو میں اپنے کھاتے میں ڈال کر اپنی کارکردگی کی رپورٹ ضرور بھجوا دیتا تھا کہ اور کچھ نہیں وہ اپنے مذہب سے تو کٹ چکے ہیں۔ ان کی سوچ تبدیل ہو چکی ہے اور وہ ایک دوسرا انداز زیست اختیار کر چکے ہیں۔ لیکن میں اندر سے بالکل خوش نہیں تھا۔ ان نوجوانوں کی دھار الٹی طرف تو جا رہی تھی لیکن ہمارے مشن کے مطابق نہیں جا رہی تھی۔ لوچانا آندرینی ان دنوں الجزائر میں ہے اور بہت ہی مشکل ماموریت میں گھری ہوئی ہے۔ وہاں اسے مسلمانوں کو جمہوریت کے خلاف ابھار کر ایک نیا سبق دینا ہے۔ یہاں وہ جمہوریت کے حق میں خاص طور پر پارلیمانی جمہوریت کے حق میں لوگوں کو ٹرینڈ کرتی رہی ہے۔ ہم بری طرح سے گھر گئے ہیں۔ ایک مسلمان ملک میں ہم مغربی جمہوریت لانا چاہ رہے ہیں، دوسرے سے لے جانا چاہ رہے ہیں۔ عجیب طرح کا سرکس ہے۔ تماشا بھی دکھانا ہے اور تنبو بھی اکھاڑنا ہے اور دونوں کام ساتھ ساتھ کرنے ہیں۔ وقت کم ہے اور وزن بڑھتا جا رہا ہے۔۔۔اگر تم سنٹر میں کسی کو بتاؤ نہیں تو ایک خفیہ خبردوں کہ لوچاناکو ایک الجزائری مسلمان سے محبت ہو گئی ہے۔ وہ عمر میں اس سے چار سال چھوٹا ہے، سکول میں پڑھاتا ہے، بہتر گھنٹے سائیکل چلانے کا انعام حاصل کر چکا ہے۔ چودہ سال کی عمر سے تہجد پڑھ رہا ہے۔ تتلا کر بات کرتا ہے اور محلے کی مسجد میں صبح کی اذان دیتا ہے۔ لوچانا نے مجھے اس کا نام بھی بتایا ہے لیکن میں اسے فی الحال تم پر ظاہر نہیں کروں گا۔
مجھ سے پہلے جب لوسی یہاں تھی تو اس کے بھی ایک پاکستانی نوجوان سے بڑے گہرے تعلقات تھے لیکن ان کے تعلقات ولایتی قسم کے تھے کیونکہ اس لڑکے کے والدین ایسے تعلقات کو برا نہیں سمجھتے تھے۔ گو اس نوجوان کے والدین کچھ خاص پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن ان کا کاروبار بہت وسیع تھا اور وہ اسلام آباد کے سفارتخانوں کو بجلی کا سامان فراہم کرتے تھے۔ ان کا بیٹا تین مرتبہ بی اے میں فیل ہو کر اب ٹرانسپورٹ کے بزنس میں ہے۔ اس وقت ٹرکوں ‘ٹرالوں کے علاوہ اس کے تین ہیلی کاپٹر کپاس پر سپرے کا کام بھی کرتے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ جونہی کوئی ایم این اے فوت ہوا میں اس کی سیٹ پر ضمنی انتخاب لڑوں گا خواہ وہ سیٹ کہیں کی بھی ہو۔ یہ مت سمجھنا سارہ! کہ میں اپنے مشن میں ڈوب کر تم کو بھول گیا ہوں، تم تو میری زندگی کا پہلا اور آخری سہارا ہو لیکن جس کام کو ہم نے پکڑا ہے اسے بھی انجام تک پہنچانا ہے۔ خدا زندہ و سلامت رکھے بی بی سی کو جو ایک چھوٹے سے کمرے میں اتنی دور بیٹھ کر عالم اسلام کو بھڑکاتا رہتا ہے اور مسلمانوں میں عزت نفس اور خود اعتمادی پیدا ہونے نہیں دیتا۔ اب گزشتہ اڑھائی مہینے سے ریڈیو جرمنی بھی اس کے ساتھ شامل ہو گیا ہے اور دونوں بھائی ایک دوسرے کو تقویت پہنچا رہے ہیں لیکن ہم کو بھی تو کچھ کرنا ہے جو اسلامی ممالک میں اس مشن پر مامور ہیں اور یہاں کے باشندوں کے درمیان رہتے ہیں۔
میری طرف سے نامختتم محبت بھرے جملے۔
تمہارا بمبوزل