جس طرح میں زیر نظر سیریز کی ابتدا میں لکھ چکا ہوں کہ سن اور تاریخیں مجھے یاد نہیں رہتیں‘ میں ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ سے منسلک تھا‘ الطاف حسین قریشی صاحب نے ایک فکری اور سماجی پلیٹ فارم بنارکھا تھا جس کا نام ’’ایوان افکار‘‘ تھا۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ ایئرپورٹ جائیں اور ایئرمارشل اصغر خان کو لے کر ایوان افکار کی اجلاس میں پہنچیں جس میں وہ خطاب کریں گے۔ ایئرمارشل ابھی سیاست میں نہیں آئے تھے لیکن پرتول رہے تھے۔ ان کی شہرت ایک نہایت محنتی‘ ایماندار اور قابل ایئرفورس کے افسر اعلی اور معمار کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کے انتہائی انتھک سربراہ کی تھی لیکن جس زمانے کی میں بات کررہا ہوں وہ پی آئی اے سے بھی فارغ ہوچکے تھے اور کہا جاتا تھا کہ وہ سیاست میں آرہے ہیں۔ ان کی عام شہرت بہت اچھی تھی میں ایئرپورٹ پر پہنچا تو وہ راولپنڈی سے آرہے تھے لیکن پی آئی اے کے سابق سربراہ اور سابق ایئرچیف ہونے کے باوجود وہ اکیلے تھے اور انتہائی سادگی کے ساتھ وہ مجھ سے ملے اور بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ انہیں لینے کیلئے ایئرپورٹ پر کوئی اور شخص نہیں تھا‘ حالانکہ ہر دوسرا تیسرا آدمی انہیں بڑے ادب سے سلام کررہا تھا۔ کسی کروفر کے بغیر وہ ایئرپورٹ سے باہر آئے‘ چاہتے تو اپنے جاننے والوں کو اپنے استقبال کیلئے بلاسکتے تھے اور نہیں تو دس‘ بیس ذاتی دوستوں کو زحمت دے سکتے تھے مگر جیسا کہ میں آگے چل کر بیان کروں گا۔
میں نے ایئرمارشل کی شخصیت میں وقار کے ساتھ ساتھ منکسرالمزاجی اور اعلی اخلاقیات کی جھلک دیکھی۔ وہ نمودو نمائش سے کوسوں دور تھے۔ ہم لوگ پرل کانٹی نینٹل پہنچے جو اس زمانے میں انٹرکانٹنی نیننٹل کہلاتا تھا‘ تقریب میں شامل ہوئے ایئرمارشل نے خطاب کیا۔ ان کی باتوں میں گھن گھرج نہیں تھی‘ سادگی اور خلوص تھا۔ میرے ذمے ان کی تقریر کے نوٹس بنانا تھا اور بعد میں انہیں آرٹ پیپر پر تقریر کی شکل میں کتابت کروا کرا سے ڈاک کے ذریعے بھجوانا تھا۔ 23 کچہری روڈ ایبٹ آباد کا ایڈریس مجھے اصغرخان صاحب نے لکھوایا۔ دراصل وہ مضمون کی شکل میں اپنے خیالات کو اخبارات میں چھپوانا چاہتے تھے۔
اس دن سے آج تک میری نیاز مندی ان سے جاری ہے۔ چند ہی ماہ کے اندر اندر وہ مجھ سے بے تکلف ہوگئے۔ اکثر ان کا فون آتا‘ میں بھی ان سے مسلسل رابطہ رکھتا تھا میں نے انہیں بتایا کہ میں پہلے ہی سے آپ کے مداحوں میں شامل ہوں لیکن اس ملاقات اور بعدازاں ٹیلی فونک رابطے سے یہ پسندیدگی اور بڑھ گئی۔ انہوں نے مجھے ایبٹ آباد آنے کی دعوت دی‘ چنانچہ میں دفتر اور کالج سے چھٹی لے کر ایئرمارشل سے ملنے گیا۔ ابتدائی ملاقات کے بعد انہوں نے اپنے گھر کے قریب ہی ایک اچھے ہوٹل میں میرے لئے کمرہ بک کروایا۔ میں روزانہ صبح تیار ہوکر ان کے گھر پہنچتا اور پھر ان کی شفقتوں اور محبتوں سے لطف اندوز ہوتا۔ وہ یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ میں یونیورسٹی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اردو ڈائجسٹ میں آٹھ گھنٹے کام بھی کرنا ہوں۔ دن میں انہیں بہت سے لوگ ملنے آئے تھے لیکن وہ مجھے ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بٹھائے رکھتے۔ اس دوران میں مجھے ان کی زبانی بے شمار باتیں سننے کا موقع ملا۔ وہ ایک محب وطن پاکستانی، بہادر سپاہی، بہترین منتظم اور اخلاقیات کی بلندیوں پر فائزنہایت عمدہ انسان ہیں۔
میں نے ایئرمارشل کے متعدد مضامین کا جو انگریزی میں تھے‘ اردو ترجمہ کیا ہے۔
انہوں نے تحریک استقلال بنائی تو میں ان کی محبت کی وجہ سے ان کے صلاح کاروں اور مشیروں میں شامل تھا‘ حالانکہ میری عمر اس وقت شاہد ان کے سارے مشیروں اور قریبی ساتھیوں سے کم تھی۔ انہی دنوں یہ فیصلہ ہوا کہ تحریک استقلال اپنا ایک ہفتہ وار جریدہ شائع کرے گی۔ لاہور کے رہنے والے ایک سیاسی کارکن اور اہل قلم ابو سعید انور کو اس میگزین کا ایڈیٹر نامزد کیا گیا لیکن میں اس رسالے کاپرنٹر تھا یعنی اس کے ڈیکلریشن میں میرے پریس کا سرٹیفیکیٹ داخل کیا گیا تھا اور ابتدا میں ایڈریس بھی میرے ہی گھر واقع لاہور کا تھا۔ اس رسالے کی تیاریوں کے سلسلے میں ایئرمارشل بے شمار مرتبہ میرے گھر آئے‘ کیونکہ ابھی تک رسالے کا دفتر نہیں لیا گیا تھا۔ اس رسالے کیلئے سرمایہ فراہم کرنا سب سے پہلا قدم تھا۔ ایئرمارشل نے ایک فرم بنائی‘ اس کے ڈائریکٹروں میں وہ خود تھے‘ ان کے ایک عزیز اے بی اعوان بھی تھے۔ سردار شیرباز خان مزاری جو آزاد رکن قومی اسمبلی تھے اور کرنل عابد حسین کی بیگم نے اپنی جگہ اپنی بیٹی اور آج کی بیگم عابدہ حسین کا نام دیا تھا۔ اس زمانے میں عابدہ حسین کے قریبی جاننے والوں میں وہ ’’چندی‘‘ کے نام سے مشہور تھیں اور ابھی سیاست میں نہیں آئی تھیں۔ میرے نزدیک ایئرمارشل پاکستانی سیاست کیلئے جو جھوٹ اور فریب سے عبارت ہے‘ ہر گز موزوں نہیں‘ میں نے دو ایک مرتبہ ان سے درخواست بھی کی کہ مجوزہ فرم کے اجلاس کے نوٹس بنتے ہیں اور پھر انہیں انگریزی میں ٹائپ کرکے ہر ممبر بورڈ کو بھیجے جاتے ہیں۔ بھٹو کا دور تھا اور آزادی صحافت کے راستے میں بڑی پابندیاں تھیں۔ ایئرمارشل صاحب بھٹو صاحب کے مخالف سیاستدان شمار ہوتے تھے۔ ان کے ساتھ ایئرفورس ریٹائرڈ گروپ کیپٹن تھے‘ جو ہر فیصلے ہر تجویز کے نوٹس عام ڈاک سے شرکاء کو روانہ کردیتے تھے‘ چنانچہ مجھے بھی لاہورپولیس کی سپیشل برانچ سے ایک اہلکار ہر تیسرے دن پوچھنے آتا تھا کہ اصغرخان کا اخبار کب نکلے گا اور کون کون اس میں پیش پیش ہے۔ میرے معلومات کے مطابق ایئرمارشل صاحب کی طرف سے عام ڈاک میں جانے والی رپورٹیں درمیان سے پکڑی اور پڑھی جاتی تھیں‘ چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک ایک کرکے آٹھ دس افراد پر دباؤ ڈالا جانے لگا کہ وہ سرمایہ لگانے سے باز رہیں۔ اے بی اعوان انٹیلی جنس بیورو کے خود بھی افسر اعلیٰ رہے تھے‘ انہوں نے بھی اس طرف توجہ دلائی کہ چھوٹی سے چھوٹی بات متعلقہ حکام تک پہنچ رہی ہے۔
مجھے آخری میٹنگ یاد ہے تحریک استقلال نام کے حصول میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں پھر سرمایہ فراہم کرنے والوں کو منع کیا گیا۔ فائنل سین میں میرے ہی گھر کے ڈرائنگ روم میں ایئرمارشل صاحب کو میرے ہی ٹیلی فون نمبر پر‘ کہ اس زمانے میں موبائل نہیں ہوتے تھے اور گفتگو کا واحد ذریعہ لینڈ لائن ہوتا تھا‘ ایک ہی دن میں اور ٹھیک میٹنگ کے وقت تین سرمایہ فراہم کرنے والوں نے معذرت کی‘ چوتھی معذرت بیگم عابدہ حسین کی والدہ ‘کرنل عابد حسین کی اہلیہ نے کی میرے سامنے فون آیا اور میں نے ہی ریسیور ایئرمارشل کو دیا۔ جب ایئرمارشل نے فون سن کر بند کیا تو وہ تھوڑے سے پریشان لگ رہے تھے‘ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ بیگم کرنل عابد حسین نے کہا ہے کہ پیسوں کا ہرگز کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن عابدہ کو پیپلزپارٹی نے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا ہے لہذا ہم اس پراجیکٹ میں نام نہیں لکھوا سکتے۔ چار لوگ معذرت کرچکے تھے‘ باقی تیسرے خود ایئرمارشل اصغر خان تھے‘ اے بی اعوان تھے جو اصغرخان کے رشتہ دار تھے اور شیر بازمزاری تھے۔ کچھ اور لوگ بھی سرمایہ فراہم کرنے کا وعدہ کرچکے تھے لیکن انہوں نے ابھی معذرت کرلی لیکن مجھے نام اب یاد نہیں۔ اصغر خان نے ہفت روزہ ’’تحریک استقلال‘‘ کے مجوزہ ایڈیٹر ابو سعید انور سے کہا میں کچھ اور لوگوں کا انتظام کرتا ہوں‘ کم ازکم دس ڈائریکٹرز ہونے چاہیءں تاکہ پراجیکٹ کیلئے مناسب سرمایہ جمع کیا جاسکے اور اس کے ساتھ ہی میٹنگ ختم ہوگئی اور یوں ویکلی تحریک استقلال شائع نہ ہوسکا۔ میں نے البتہ یہ درخواست ضرور کی کہ آئندہ کسی بھی اہم میٹنگ کے منٹس بذریعہ ڈاک بے شمار لوگوں کونہ بھیجے جائیں۔ بھٹو صاحب کی حکومت آسانی سے ہر مرحلے پر تحریک استقلال کے عزائم کو ناکام بنادے گی۔
اصغر خان نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن معاملات ان کی گرفت سے باہر تھے۔ بھٹو صاحب کے مقابلے میں تحریک استقلال نے بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ اصغر خان ایک بار لاہور آئے تو اپنے بھائی بریگیڈیئر اسلم کے گھر جو ایئرپورٹ کے قریب تھا‘ انہوں نے فون پر مجھے طلب کیا۔ میں پہنچا تو وہ بولے آپ حکومت سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں‘ تحریک استقلال کے نام سے ہم ویکلی پرچہ نہ نکال سکے لیکن آپ کے پاس تو ہفت روزہ اخبار ہے۔ آپ اسے تحریک استقلال کا ترجمان بنادیں۔ میں نے کہا میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن میں کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوں‘ آزاد ہوں اور آزاد ہی رہنا چاہتا ہوں۔ایئرمارشل معصومیت سے بولے بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہونے والی ہے اور عنقریب ہمارا دور شروع ہوگا‘ بس چند ماہ کی بات ہے۔ میں نے کہا مجھے تو ایسا نظر نہیں آتا مجھے سمجھائیں آپ کے ذہن میں کیا ہے ‘وہ بڑے لائٹ موڈ میں تھے کہنے لگے پاکستان جیسے ملکوں میں تبدیلی ووٹ سے نہیں آیاکرتی۔ پھر اپنے ایک ہاتھ کے اوپر کچھ فاصلے پر دوسرا ہاتھ رکھا اور کہنے لگے کہ حکومت وقت کی سب سے مؤثر اپوزیشن بن جاؤ اور تبدیلی کا انتظار کرو‘ یہاں جو فورسز تبدیلی لاتی ہیں جب وہ ایسا کریں گی تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ نمبرون کو ہٹادیا جائے تو نمبر ٹو کی باری آنی چاہیے۔ یہ کہہ کر اپنا اوپر والا ہاتھ اٹھایا اور نیچے والے ہاتھ کو کھڑا کردیا۔ میں نے بتایا کہ میری عمر اور تجربہ ان سے بہت کم تھا‘ اس کے باوجود وہ مجھے انتہائی معصوم اور بچوں کی طرح سادہ لوح نظر آئے۔ میں نے کہا وہ قوتیں جو ایسی تبدیلی لاتی ہیں وہ خود نمبر ون کیوں نہیں بنیں گی؟ آپ کو ایبٹ آباد سے لاکر پہلے نمبر پر کیوں اٹھائیں گی؟ وہ مسکرائے اور بولے دیکھتے جاؤ۔