2015ء میں جب تحریک انصاف کے رہنما کنٹینروں پر تھے ایئرمارشل اصغر خان نے تحریک انصاف کی حمائت کی بعد ازاں انہوں نے اس حمایت کا رسمی اعلان بھی کیا گویا آخری خبر آنے تک تحریک استقلال (اگر وہ کہیں ہے) تو تحریک انصاف میں مدغم ہو چکی ہے یا دونوں جماعتوں کا اتحاد ہوچکا ہے تاہم عملاً تحریک استقلال اب کہیں بھی پائی نہیں جاتی اور ایئرمارشل جن کے بیٹے عمر اصغر خان نے بھیتحریک استقلال چھوڑ کر اپنی پارٹی بنا لی تھی لیکن باپ بیٹا دونوں کی پارٹیاں اب اپنا وجود نہیں رکھتیں اور ان کا بنیادی سٹرکچر بھی زیر زمین جا چکا ہے۔ اصغر خان کے حوالے سے اب کوئی ستارہ نہیں ابھرتا البتہ طویل العمری کے باوجود ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے اور انہیں بزرگی اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اصغر خان کی زندگی کے بہت سے پہلو میرے سامنے آئے لیکن ہر پہلو سے میں نے انہیں ایک ایماندار اور محب وطن پاکستانی پایا۔ ان کی ناکامی کی شاید ایک یہی وجہ تھی کہ وہ روایتی سیاست کے مکرو فریب سے آگاہ نہ تھے۔ ایک زمانے میں وہ ایبٹ آباد سے آ رہے تھے کہ ’’جنگ‘‘ راولپنڈی کے دفتر کے سامنے ان کے بھائی بریگیڈیئر اسلم کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوئی۔ ایبٹ آباد کے لطف اللہ جدون ان کے ہمراہ تھے۔ ایئرمارشل اصغر خان نے لاہور آنا تھا تاہم میرے پاس پی آئی اے کا واپسی ٹکٹ تھا۔ میں نے بتایا تو اصغر خان نے کہا ضیا صاحب چھوڑیں ہمارے ساتھ چلیں راستے میں گپ شپ رہے گی۔ میں نے حامی بھر لی۔ ایئرمارشل کو بڑی گاڑیوں اور شان و شوکت کا کوئی شوق نہیں۔ ییلو کلر کی فیٹ 1100 ان کے پاس تھی۔ میں اور لطف اللہ جدون پیچھے بیٹھ گئے اور ایئرمارشل ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر، اس زمانے میں موٹر وے تو تھا نہیں جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور پہنچنے میں چھ ساڑھے چھ گھنٹے لگتے تھے پھر ایئر مارشل ڈرائیور کو بار بار تاکید بھی کر رہے تھے کہ تیزی مت دکھاؤ۔ ہماری منزل گوجرانوالہ سے شیخوپورہ جانا اور چند گھنٹے رکنے کے بعد لاہور پہنچنا تھا۔ سیاست کے علاوہ ان کی ذاتی زندگی ایئرفورس کے بعد پی آئی اے کے واقعات میں موقع سے فائدہ اٹھا کر بار بار انہیں کریدتا رہا۔ وہ اپنی روائتی سادگی کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔ میرے سوال کے ہر جواب سے ان کی شخصیت اجاگر ہوتی چلی گئی۔ حسب سابق ان کی گاڑی کے ساتھ دوسری کوئی اور گاڑی نہ تھی اور یہ پروٹوکول لینے اور دینے کی رسم بد ابھی شروع نہ ہوئی تھی۔ گوجرانوالہ سے ہم نے جی ٹی روڈ چھوڑی اور شیخوپورہ جانے والی چھوٹی سڑک پر سفر شروع کیا۔ معلوم نہیں کس طرح تحریک استقلال کے چند مداحوں کو علم ہو گیا تھا کہ شیخوپورہ میں ایک جلسے میں شرکت کے لئے ایئرمارشل یہاں سے گزریں گے پچاس ساٹھ افراد سڑک کے گرد جمع تھے۔ شاید انہوں نے تفصیلات تحریک استقلال کے شیخوپورہ میں راہنما نوجوان وکیل ناگرا صاحب سے لی تھیں اور یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ وہ ییلو کلر کی چھوٹی گاڑی میں آ رہے ہیں۔ چنانچہ ہم ایک موڑ پر پہنچے تو ہماری گاڑی دیکھ کر کچھ لوگوں نے زوروشور سے ہاتھ ہلائے ہمارے رکنے پر انہوں نے اپنا تعارف کرایا اور اصرار کیا کہ کچھ دیر انہیں بھی دیں۔ تھوڑے فاصلے پر درختوں کے جھنڈ کے نیچے چارپائیاں بچھی تھیں ایئرمارشل کو بٹھایا گیا اور لوگ جمع ہوتے گئے جلد ہی سو سوا سو کا مجمع لگ گیا۔ لوگ ایئرمارشل سے سوال جواب کرنے لگے۔ دس پندرہ منٹ بعد کرتے اور تہمد میں ملبوس ایک دیہاتی نے پنجابی زبان میں کہا جناب! بھٹو بادشاہ ہے فوج اس کے پاس ہے پولیس اس کا حکم مانتی ہے سرکاری ملازم اس کے تابع ہیں آپ بتائیں کہ
حکومت کا مقابلہ کیسے کریں گے اور آپ بھٹو کو کیسے نکال سکتے ہیں۔ ایئرمارشل نے تسلی دی اور اُردو میں بولے کہ عوام کی طاقت سے ہی جمہوری نظام میں کوئی پارٹی کامیاب ہوتی ہے اور عوام کی طاقت ہی سے کوئی دوسری جماعت آگے نکل سکتی ہے۔ انشاء اللہ ہم کامیاب ہوں گے کیونکہ ہمارے ساتھ آپ عوام کی طاقت ہے انشاء اللہ ہم کامیاب ہوں گے کیونکہ ہمارے ساتھ آپ عوام کی طاقت ہے۔ روٹی کپڑا مکان کوئی بھی وعدہ بھٹو صاحب نے پورا نہیں کیا۔ جمہوریت کے نام پر آنے والی پارٹی خود جمہوریت کا نام بدنام کر رہی ہے اورا ملک میں بدترین بادشاہت ہے۔ وہ کچھ دیر بولتے رہے پھر خاموش ہوئے تو اس دیہاتی نے کہا معاف کرنا جناب ہم تو ان پڑھ لوگ ہیں کھیتی باڑی کرتے ہیں تو اللہ پاک دال روٹی دے دیتا ہے۔ آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ ہمارے دیہاتوں میں تو نمبر دار بدلنا ہو تو پندرہ بیس برس لگ جاتے ہیں اور دونوں پارٹیوں میں دوچار قتل بھی ہو جاتے ہیں۔ جناب آپ فرمائیں کہ اتنی لڑائی اور مارکٹائی کے بغیر ہم کس طرح بھٹو کو اتار سکتے ہیں۔ ایئرمارشل نے پھر چھوٹی سی تقریر کی لیکن وہ دیہاتی نہ مانا اس نے کہا جی آپ بڑے آدمی ہیں مگر آپ کی بات ہم جاہلوں کے پلے بالکل نہیں پڑی۔ چلو اللہ خیر کرے۔ اس مکالمے کے بعد ہم نے اجازت لی اور دوبارہ کار میں بیٹھ کر شیخوپورہ روانہ ہوئے۔ راستے میں یہی موضوع زیر بحث رہا۔ ایئرمارشل کا خیال تھا کہ لوگوں کو اپنی طاقت کا احساس نہیں لیکن میں مُصر رہا کہ دیہاتی ٹھیک کہتا ہے، عملی صورت حال یہی ہے۔
شیخوپورہ پہنچ کر ہم ناگرا صاحب کے گھر گئے۔ جلسہ گاہ جانے کے لئے کچھ دیر آرام کیا۔ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ میں نے کم از کم روزہ نہیں رکھا تھا۔ راستے میں چونکہ ہم نے کچھ کھایا پیا نہیں تھا لہٰذا میرے ذہن میں یہی تھا کہ ایئرمارشل بھی روزے سے ہوں گے تاہم احتراماً میں نے بھی پانی تک نہ پیا تھا۔ ناگرا صاحب نے ہمیں دو کمرے دیئے ایک میں ایئرمارشل صاحب ٹھہرے اور دوسرے کمرے میں میں اور جدون صاحب، پیاس کے مارے میری بُری حالت تھی لیکن کھلے عام کچھ پینے یا کھانے سے میں نے گریز کیا تھا لہٰذا میں نے ناگرا صاحب سے صاف کہا کہ میرا روزہ نہیں لیکن صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں اور اب بُری حالت ہے وہ خود فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل لائے اور گلاس میرے ہاتھ میں تھمایا، میں نے پانی پیا تو محسوس ہوا کہ پیٹ خالی ہے۔ میں نے کہا کچھ کھانے کو مل جائے تو وہ کہنے لگے کھانا تیار ہے لیکن اجلاس کے بعد اور روزہ افطار کے وقت پر مل کر کھائیں گے۔ میں نے کہا جو کچھ ہو لا دیں رات سے پیٹ خالی ہے اور پانی پینے سے بھوک اور چمک اٹھی ہے، وہ دوبارہ گھر کے اندر گئے اور ایک پلیٹ میں کچھ سالن اور ڈبل روٹی کے چند سلائس لے کر آئے۔ ان کے جانے کے بعد ایئرمارشل درمیانی دروازہ کھول کر اندر آئے۔ میں بڑی تیزی سے کھا رہا تھا وہ مسکرائے اور بولے بھائی روزہ میرا بھی نہیں لیکن میں رمضان المبارک کے احترام میں راستے میں بھی چپ رہا۔ میں نے کہا کم از کم آپ پانی لیں کھانے کو کچھ اور منگوا لیتے ہیں، میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب ایئرمارشل نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا جب ہمارے میزبانوں کا خیال ہے کہ میرا روزہ ہے تو اب کچھ کھانے کے لئے مانگنے پر انہیں تعجب ہو گا، کوئی بات نہیں۔ افطار میں ڈیڑھ پونے دو گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہے۔ انشاء اللہ افطار پر ہی کچھ کھائیں گے۔ میں نے کہا اچھا پھر تھوڑا پانی لے لیں، وہ بولے فوج میں ہماری بہت تربیت ہوتی ہے میں بھوکا رہ سکتا ہوں ناگرا صاحب سے اس بات کا ذکر نہ کیجئے گا وہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو مجرم سمجھیں گے، میری نظر میں ان کی وقعت اور بڑھ گئی۔ دوسروں کی دل شکنی ہو یہ انہیں گوارا نہ تھا۔ ایئرمارشل کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی روداد بہت لمبی ہے۔ بے شمار واقعات ہیں، ہر واقعے سے ان کی سچائی، شرافت اور نیک نیتی چھلکتی ہے۔ بھٹو کی حکومت میں ناصر باغ لاہور میں تحریک استقلال کا جلسہ ہو رہا تھا۔ تحریک کے نائب صدر اور ملتان سے تعلق رکھنے والے انصاری برادری کے رہنما بابو فیروز دین انصاری تقریر کر رہے تھے لیکن وہ اتنے سادہ لوح انسان تھے کہ بار بار کرسی صدارت پر بیٹھے ہوئے اصغر خان کی طرف اشارہ کر کے کہتے اے میری قوم اصغر خان شاہین پاکستان ہیں انہوں نے ایئرفورس کو مضبوط بنایا لیکن تم نے اے جاہلو ان پر انڈے پھینکے انہیں آلو خان کہا، ان کے منہ پر تھوکا، وہ مسکراتے رہے اور برداشت کرتے رہے۔ تم نے پھر ان کے منہ پر تھوکا۔ میں روسٹرم کے ساتھ ہی لکڑی کے تختے پر بچھے ہوئے قالین پر بیٹھا تھا اور نوٹس لے رہا تھا۔ اتنے میں بابو صاحب پھر بولے، تم نے اے جاہلو بار بار ان کے منہ پر تھوکا۔ میں نے فوراً کاغذ کی سلپ پر جلدی سے لکھا بابو صاحب! کافی لوگوں نے تھوک لیا ہے اب مزید ذکر نہ کریں اور اٹھ کر روسٹرم پر یہ سلپ ان کی نظروں کے سامنے رکھ دی جلسہ ختم ہونے کے بعد میں نے انہیں گھیر لیا اور کہا خدا کا خوف کریں اتنا تو ساری قوم نے مل کر نہیں تھوکا ہو گا جتنا آپ نے اپنے لیڈر پر لُعاب پاشی کر دی۔ جتنے لوگ قریب کھڑے تھے سب ہنسنے لگے لیکن ایئرمارشل نے بابو صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا آپ نے بہت اچھی تقریر کی۔
ایئرمارشل کی پہلی کتاب ’’صدائے ہوش‘‘ اور دوسری Lighter side of Power game میں نے ’’جنگ‘‘ پبلشرز کے لئے چھاپی۔ جب میں ’’جنگ‘‘ لاہور سے منسلک تھا۔ بطور انسان وہ مخلص دوست اور بطور دانشور وہ سچے کھرے اور معصوم انسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں خوش رکھے۔ پاکستان کی صدارت کے لئے ان سے موزوں شخص میری نظر میں اور کوئی نہیں۔