یہ تھا ایئر مارشل کی سیاست کا مرکزی نقطہ یعنی ’’حکومت جو کہتی ہے اس کی ڈٹ کر مخالفت کرو اور جس کی مخالفت کرتی ہے اس کی جم کر حمایت کرو‘‘ بنگلہ دیش بنا تو ایئر مارشل کا مؤقف تھا کہ فوراً اسے تسلیم کیا جائے اس سے پیشتر کہ وہ آپ سے بہت دور چلا جائے اسے اپنے سینے سے لگا لو چنانچہ سب سے پہلے بنگلہ دیش کو تسلیم کرو کا مطالبہ ایئر مارشل نے ہی کیا لیکن کچھ عرصہ بعد جب بھٹو صاحب جو اس وقت باقی ماندہ پاکستان کے سربراہ تھے بنگلہ دیش کو منظور کرنے کی حامی بھری تو مجھے حیرت ہوئی کہ تحریک استقلال کے لیڈر نے سب سے پہلے نعرہ بلند کیا کہ بنگلہ دیش نا منظور‘ گویا اب اس کی مخالفت کر رہے ہیں انہی دنوں میں نے ایک ملاقات میں ایئر مارشل سے کہا کہ آپ تو بنگلہ دیش کو خود تسلیم کرنے کے حامی تھے اب آپ نے اچانک پٹڑی تبدیل کیوں کرلی تو وہ بڑی معصومیت سے بولے اب بھٹو صاحب اسے تسلیم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ان کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں۔ بھٹو صاحب کی مخالفت میں انہوں نے ہر میدان اور ہر مسئلے پر ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے جو بھی خلاف ہوتا وہ تحریک استقلال میں آ جاتا۔ کتنے لوگ تحریک میں آئے مگر زیادہ دیر نہ چلے۔ یوں لگتا تھا کہ تحریک انصاف کنڈر گارٹن سکول ہے اور لوگ تربیت کیلئے اس میں آتے ہیں اور ذرا ہوش آتا ہے تو آگے نکل جاتے ہیں اور کسی دوسری طاقت کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ اعتزاز احسن سے لے کر میاں محمد نواز شریف تک بے شمار لوگ تحریک استقال میں آئے اور پھر نکل گئے مگر اصغر خان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی البتہ جب مسلم لیگ ن کنگز پارٹی کے طور پر سامنے آئی اور قومی سیاست میں نئی محاذ آرائی شروع ہوئی تو ایک مرحلے پر پیپلز پارٹی اور تحریک استقلال کو اکٹھے ہونا پڑا۔ شاید کنگز پارٹی کا مقابلہ کرنا مقصود تھا۔ مسلم لیگ (ن) کو ضیاء الحق کی مکمل حمایت حاصل تھی یہاں تک کہ ضیاء الحق یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ میری سوچ کے جانشین نواز شریف ہونگے اور ان کا کلہ قائم رہے گا۔ ایک مرحلے پر تو باقاعدہ جنرل ضیاء الحق نے میاں نوازشریف کو دعا دیتے ہوئے کہا کہ میری عمر بھی انہیں لگ جائے۔ پیپلزپارٹی اور تحریک استقلال دونوں پی ڈی اے (پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس) کا حصہ تھے اور میاں خورشید محمود قصوری جو ان دنوں ایئر مارشل کے ساتھ تھے۔ پی ڈی اے کے سیکرٹری جنرل بنے الیکشن سر پر تھا پاکستان ٹیلی ویژن نے تمام بڑے سیاسی رہنماؤں کے انٹرویو ریکارڈ کیے اور دکھائے۔ ولی خان‘ الطاف حسین، نوابزادہ نصر اللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی، اصغر خان، میاں نواز شریف سبھی کے انٹرویوز اخبارنویسوں کے ایک ہی پینل نے کیے جس میں اتفاق سے میں بھی شامل تھا۔ میرے ساتھ برادرم مجیب الرحمان شامی اور نذیر ناجی بھی تھے۔ ایئر مارشل کا انٹرویو شروع ہوا تو تعارف کے بعد میں نے ان سے پہلا سوال یہ کیا کہ آپ تو پی این اے (قومی اتحاد) کے دنوں میں یہ تقریر کر چکے تھے کہ بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دیں گے۔ اب آپ ان کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں۔ ایئر مارشل نے جواب دیا کہ جمہوریت کو بچانا ضروری ہے اور فوجی ڈکٹیٹر کی بنائی ہوئی پارٹی کی مخالفت لازم ہے۔ سوال جواب آگے چلے تو ان سے پوچھا گیا کہ پی ڈی اے کے ٹکٹ پر تحریک استقلال نے بھی دو امیدوار کھڑے ہیں۔ ایک آپ اور دوسرے آپ کے صاحبزادے عمر اصغر خان (جو کافی سال پہلے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں) کہا آپ کی پارٹی میں آپ کے علاوہ صرف آپ کا بیٹا ہی شامل ہے تو اغصر خان پھنس گئے۔ بعدازاں ناجی صاحب نے انہیں گھیر لیا او ایسے نوک دار اور پیچ دار سوال کیے کہ اصغر خان بڑی بری طرح چکرا گئے لیکن وہ مسلسل جواب دیتے رہے۔ سوال کرنے والوں کا پلڑا بھاری نظر آتا تھا لیکن انٹرویو ختم ہوا تو ایئر مارشل نے اپنی روایتی سادگی کے ساتھ ہمارا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ نے بہت عمدہ سوال کیے۔ اگلی صبح تک سامعین میں سے اکثر کا خیال تھا کہ کرکٹ کی اصطلاح میں وہ کلین بولڈ ہو گئے ہیں۔ ’’مساوات‘‘ روزنامہ ہی نہیں پی ڈی اے کا آرگن بھی تھا اس نے ایئرمارشل کی حمایت میں پینل کے تینوں ارکان کی خوب خبر لی۔ ہمارے خلاف ایک کارٹون چھاپا گیا جس میں تین بوہلی کتے دکھائے گئے جو میز کے ایک طرف اور ایئرمارشل دوسری طرف بیٹھے تھے۔ حملہ کافی سخت تھا تاہم ہم نے انجوائے کیا۔ وقت گزرتا گیا۔ ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ایئرمارشل ذاتی طور پر انتہائی نیک نفس، وضعدار اور سرتاپا شرافت کا مجسمہ ہیں۔ وہ تو کسی کو گالی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن گورنر ہاؤس میں ملک غلام مصطفی کھر براجمان تھے اور ڈیوس روڈ ’’جنگ‘‘ کے دفتر سے ذرا آگے بائیں طرف ایک چھوٹی سی کوٹھی میں رہائش پذیر ٹی وی کی نامور اداکارہ طاہرہ مسعود تحریک استقلال میں شامل ہو گئیں اور ان کا گھر عملاً ایئر مارشل کا دفتر بن گیا۔ پریس کانفرنسیں اب ان کے ہاں منعقد ہوتی تھیں کیونکہ یہ پریس کلب کے قریب تھا اور اخبار نویسوں کے لئے وہاں جانا بہت آسان تھا، طاہرہ مسعود بہاولپور سے منتخب ہونے والے معروف سیاستدان میاں نظام الدین حیدر کی صاحبزادی تھیں۔ تعلیم یافتہ اور سیاسی پس منظر کے باعث دانشور سمجھی جاتی تھیں۔ میرے ہفت روزہ میں بھی وہ وقتاً فوقتاً کالم لکھتی تھیں۔ ان کے سیاسی تجزیئے محترم برنی صاحب کے انگریزی ہفت روزہ ’’آؤٹ لُک‘‘ میں چھپتے تھے اور بہت پسند کئے جاتے تھے۔ ایئرمارشل ان کے ہاں بہت جاتے تھے۔ ان کے شوہر مسعود صاحب قومیائی گئی صنعتوں میں سے کسی صنعت میں انجینئر تھے تاہم تفصیل سے مجھے یاد نہیں کہ کہاں ملازم تھے۔ ایک دن دھماکہ ہوا کہ مسعود صاحب نے اپنی بیوی اور اصغر خان پر مقدمہ دائر کر دیا کہ شادی شدہ ہونے کے باوجود اصغر خان سے ناقابل برداشت حد تک قریب ہو گئی ہیں۔ عام خیال یہ تھا کہ یہ منصوبہ مصطفی کھر نے بنایا ہے اور وہی مسعود صاحب کے پیچھے ہیں، بتلانے والے بتلاتے ہیں کہ ان دنوں مسعود صاحب کا گورنر ہاؤس میں بہت آنا جانا تھا، ایئرمارشل کی شرافت نیک نامی اور وضعداری کے باعث مقدمہ عدالت میں جانے کے باوجود عوامی حلقوں نے اس الزام کو قبول نہیں کیا۔ میں ایئرمارشل صاحب سے بھی بہت واقف تھا اور اکثر طاہرہ سے ملنے بھی ان کے گھر جاتا تھا۔ ہم نے بہت سے مضامین اکٹھے تیار کئے کہ وہ بولتی جاتی تھیں میں لکھتا جاتا تھا۔ ایئرمارشل سے برسوں سے رفاقت رہی تھی۔ خود میں قسم کھا کر کہہ سکتا تھا کہ یہ الزام جھوٹا ہے کیونکہ ایئرمارشل کردار کے بہت مضبوط انسان تھے۔ کافی مہینوں تک یہ سکینڈل پھیلانے کی بہت کوشش کی گئی خود حکومت نے اسے بہت اچھالا لیکن بالآخر یہ داستان بھی قصۂ پارینہ بننے لگی البتہ بعد ازاں طاہرہ اور مسعود کے مابین طلاق ہو گئی۔ کافی عرصہ گزرنے کے بعد طاہرہ نے پنجاب کی یونیورسٹی کے طالب علم رہنما حفیظ خان سے شادی کر لی اور یوں وہ طاہرہ خان بن گئی، وہ پنجاب اسمبلی کی رکن بھی بنیں لیکن جلد ہی منظر سے غائب ہو گئیں مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا کہ ایک بہت ذہین خاتون اس بے ہودہ سکینڈل کے باعث سیاست میں سروائیو نہ کر سکیں۔ یار لوگ اس بات پر بہت ہنستے تھے کہ ایئر مارشل کی پارٹی میں ہمیشہ ایک نہ ایک ٹی وی ایکٹرس ضرور شامل رہیں اور طاہرہ کے بعد مہناز رفیع جو ہمارے دوست یحییٰ کی مسز تھیں تحریک استقلال میں آئیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس بار کوئی سکینڈل نہ بنا بعد ازاں خورشید محمود قصوری کے ساتھ آپا مہناز نے بھی تحریک استقلال کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں پناہ لی۔ خورشید نائب صدور کی طویل فہرست میں شامل ہو گئے اور مہناز رفیع کو مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلس عاملہ کا رکن نامزد کیا گیا۔ میاں نوازشریف کے سعودی عرب جانے کے بعد مہناز رفیع کو مسلم لیگ ق میں پناہ ملی اور وہ ایم این اے بھی بنیں، آج کل ق والوں کی طرح وہ بھی گہنا جاتیں تاہم انہوں نے پھر خورشید محمود قصوری کا تعاقب کیا اور دونوں عمران کی پارٹی میں شامل ہو گئے گویا تحریک استقلال سے تحریک انصاف کی زینت بن گئیں، اب نئے لوگ خاص طور پر نوجوان مردوں اور عورتوں نے بے تحاشا تحریک انصاف کا رخ کر لیا تھا لہٰذا طویل سیاسی تجربہ رکھنے کے باوجود مہناز رفیع کو آگے آنے کا موقع ہی نہ ملا اور وہ سیاسی گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ ایئرمارشل نے بہت مشکل زندگی گزاری۔ سیاست میں اپنی انتہا پسندانہ سوچ کی وجہ سے وہ تحریک استقلال کو کبھی صف اول کی جماعت نہ بنا سکے حتیٰ کہ پرویز مشرف کے دور میں ان کے بیٹے جو اپنی این جی او کے ساتھ بہت پروگریسو سمجھے جاتے تھے وفاقی وزیر بنا دیئے گئے اور انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بنا لی جس میں قدرتی طور پر انگریزی بولنے والے این جی اوز زدہ لڑکے لڑکیاں شامل تھے اس طرح ایئرمارشل گمنامی کی نذر ہو جاتے اگر وہ اصولوں پر مستقل طور پر جدوجہد نہ کرتے۔ انہوں نے غلام اسحاق خان کے دور میں آئی ایس آئی کے ذریعے پیپلزپارٹی کی مخالف سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کو کمرشل بینکوں سے زبردستی لئے جانے والے پیسے کی تقسیم کے خلاف سپریم کورٹ میں شکایت دائر کی۔ اس فہرست میں بہت لوگ ملزم قرار پائے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی ہمارے دوست اور ’’خبریں‘‘ کے مضمون نگار اور تجزیہ کار بریگیڈیئر حامد سعید اختر جو نگران حکومت میں پنجاب کے وزیر بلدیات بھی رہے نے تسلیم کیا تھا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کس کس سیاستدان کو پیسے دے چکے ہیں۔ سیاستدانوں میں سے جناب میاں نوازشریف، شہباز شریف، سیدہ عابدہ حسین اور دیگر سیاسی لوگ شامل تھے۔ یہ مقدمہ اب تک چل رہا ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ نے ملزموں کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا تھا یہ معاملہ اسی طرح آج تک لٹک رہا ہے۔ (اس سے ہماری عدلیہ کی زبوں حالی کے ساتھ ساتھ تحقیق و تفتیش کی سست رفتاری بھی عیاں ہوتی ہے) جنرل اسلم بیگ جو آرمی چیف تھے یونس حبیب جو مہران بنک کے سربراہ تھے کے علاوہ چونکہ سب نے یہی بیان دیا کہ انہوں نے غلام اسحاق خان کے کہنے پر رقوم جمع کیں اور پیپلزپارٹی مخالف جماعتوں اور لیڈروں میں تقسیم کیں لیکن بدقسمتی سے غلام اسحاق خان کا انتقال ہو چکا ہے اور باقی جنرل اسلم بیگ مرزا کے خلاف ابھی تک تحقیق و تفتیش نہیں ہو سکی۔
(جاری ہے)
2015ء میں جب تحریک انصاف کے رہنما کنٹینروں پر تھے ایئرمارشل اصغر خان نے تحریک انصاف کی حمائت کی بعد ازاں انہوں نے اس حمایت کا رسمی اعلان بھی کیا گویا آخری خبر آنے تک تحریک استقلال (اگر وہ کہیں ہے) تو تحریک انصاف میں مدغم ہو چکی ہے یا دونوں جماعتوں کے اتحاد ہو چکا ہے تاہم عملاً تحریک استقلال اب کہیں بھی پائی نہیں جاتی اور ایئرمارشل جس کے بیٹے عمر اصغر خان بھی