ایک دن ایم اے اردو کی ایک طالبہ میرے پاس آئی اور خطوط کا ایک پلندہ مجھے دیا۔ اس نے کہا ضیا صاحب میں تنگ آ چکی ہوں۔ ہر دوسرے دن مجھے ایک خط ملتا ہے لیکن لکھنے والا کسی محبت نامے پر اپنا نام نہیں لکھتا۔ ہر خط میں عبارت کے آخر میں لکھا ہوتا ہے، ”فقط تمہارا سیاہ سوٹ“ اس لڑکی نے جل کر کہا اب میں اس عاشق صاحب کو کیسے تلاش کروں۔ سینکڑوں لڑکے سیاہ سوٹ پہنتے ہیں۔ اس ذات شریف کا پتا کیسے چلے۔ یہ کوئی ڈرپوک چوہا ہے آپ اسے تلاش کریں اور اسے سمجھائیں کہ بزدلی چھوڑے اور اپنا نام تو لکھے۔ میں نے لائبریری کے دروازے پر ایک خط چسپاں کردیا اور لکھا بزدل چوہے اپنا نام تو لکھو۔ ہمارے ایک کلاس فیلو کے نام کے ساتھ مجوکہ آتا تھا۔ ان کی ایک کلاس فیلو انہی کے ضلع سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ جھنگ کی بولی میں بات کرتی تھی۔ انہیں غصہ آتا تو سیاہ برقعے میں لپٹی ہوئی طویل القامت لڑکی سیڑھیوں پر اسے روک لیتی اورکہتی وے مجوکیا نوٹس چادے۔ مجوکہ اس سے بہت بھاگتا تھا، کیونکہ وہ سب لوگوں میں اسے کھڑا کرلیتی تھی، بعد میں مجوکہ پاکستان ٹیلی ویژن میں چلے گئے۔ انہی دنوں قیوم نظامی بھی ایم اے اُردو کر رہے تھے ان کے والد کی اُردو بازار میں کتابوں کی دکان تھی۔ وہ اُردو شاعری کے روائتی کرداروں کی طرح دو سال تک بار بار ایک ادیبہ اور شاعرہ طالبہ سے ”مدعا“ بیان کرنے کا پروگرام بناتے رہے لیکن مناسب موقع نہ ملنے کی وجہ سے وقت گزر گیا اور وہ ”مناسب وقت“ کا انتظار ہی کرتے رہے۔ قیوم نظامی بہت ذہین نوجوان تھے جو بعد ازاں پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات بھی رہے آج کل دانشور اور کالم نگار ہیں اور بہت معتبر کتابوں کے مصنف ہیں۔ گزشتہ دنوں قیوم نظامی کا فون آیا۔ میں نے بتایا کہ اورینٹل کالج کے بعض دوستوں کے بارے میں کچھ لکھ رہا تھا۔ انہوں نے مجھے یاد کرایا کہ میرے پاس ایک ڈائری ہوتی تھی جو میں کھول کر ہر دوست کے سامنے رکھتا اور کہتا تھا کہ اِس پر اپنا پسندیدہ شعر لکھ دو قیوم صاحب بولے یہ ڈائری آج تک میرے پاس ہے اور اس کے ایک صفحے پر آپ نے اپنے ہاتھ سے پسندیدہ شعر رقم کیا تھا۔
ان کی خوشبو نفس نفس میں ہے
سانس لینا بھی اب ہے کارِ ثواب
قیوم صاحب نے عطاءالحق قاسمی کے بارے میں ایک لطیفہ سنایا کہ ہمارے ایک دوست کی شادی ادھیڑ عمر کی سید زادی سے ہو گئی قاسمی صاحب نے یہ دو شعر ان کی نذر کئے۔
طفل ہنوز گُلِ نو دمیدہ ہے
مادام سرد و گرم زمانہ چشیدہ ہے
افسوس ان کو ہو گا یہ رات بھی گئی
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
محمد حسین ملک بھی جو بعد ازاں پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز بھی رہے۔ اور آج کل کبھی کبھار کالم وغیرہ بھی لکھتے ہیں۔ ایم اے اُردو کے اس بیج میں تھے۔ حبیب کیفی معروف شاعر اور رائٹرز گلڈ کے دفتر میں انچارج ہوتے تھے۔ ملک محمد حسین نے بہت ”کوہ پیمائی“ کی مگر طالب علمی ہی کے زمانے سے اچھی شاعرہ شائستہ حبیب تک نہ پہنچ سکے برسوں بعد شائستہ ریڈیو پاکستان کی پروڈیوسر بنی تو فخر زمان نے ان سے دوسری شادی کی۔ وہ بہت ذہین و فطین خاتون تھیں اور اب اپنے خدا کے پاس جا چکی ہیں۔ بنگال سے آئے ہوئے ارشاد صدیقی بھی اس زمانے میں تھے جنہوں نے اپنی کلاس فیلو عزت پروین سے شادی کی دونوں نے سمن آباد میں ایک سکول کھولا مگر اب دونوں اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔
ہرسال کلاس کا خاتمہ ہوتا تو دو تین جوڑے سامنے آتے تھے جن کی بالآخر شادی ہو جاتی تھی۔ ان شادیوں میں ایک نوجوان اور خوبصورت استاد خواجہ زکریا بھی شامل تھے جن کی شادی انہی کی ایک شاگردہ سے ہوئی۔ خواجہ صاحب چمن میں روزانہ بیڈ منٹن بھی کھیلتے تھے۔ مسرور کیفی نے بھی طالب علمی میں یقینا کچھ عشق بھی کیے اور عشقیہ شاعری بھی کی ان کا ایک شعر پیش خدمت ہے۔
اس زرجبیں کا خط نہ سندیہ ملا کوئی
گزرے میری گلی سے کئی بار ڈاکیے
قارئین!ڈاکٹر سید عبداللہ نے اپنی ریٹائرمنٹ پر ہونے والے مظاہرے اور ہڑتال کو بمشکل ختم کرایا۔ ان کے سمجھانے بجھانے پر ہم نے ہڑتال ختم کردی۔ کالج میں آخری بار وہ رسمی طور پر چارج دینے کے لئے آئے تو دفتر سے نکل کر انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور چمن یعنی گراسی گراﺅنڈ میں لے آئے۔ انہوں نے بہت نصیحتیں کیں‘ ڈسپلن کا خیال رکھنا‘ لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان حد کو قائم رکھنا‘ اورنٹیل کالج کی روایت کو نہ بھولنا‘ چمن میں برگد کا جو پرانا درخت ہے‘ اسے نہ کٹنے دینا‘ اُردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لئے جدوجہد کرتے رہنا وغیرہ وغیرہ پھر اچانک بولے‘ اپنی صحت کا خیال رکھنا‘ کھانے پینے میں احتیاط کرنا پھر قدرے توقف سے بولے۔ میری صحت کا راز تین چیزوں میں ہے‘ میں دیکھنے میں کمزور ضرور لگتا ہوں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس عمر میں بھی میرے قویٰ مضمحل نہیں ہوتے۔ میں آہستہ چلتا ہوں لیکن روزانہ صبح کی سیر میری عادت ہے۔ صحت کا راز شراب‘ شباب اور کباب میں ہے۔ میں چونک اٹھا‘ میں نے کہا سر! یہ بات سمجھ میں نہیں آئی‘ آپ تو کسی لڑکے کو لڑکی سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیں تو سخت سرزنش کرتے ہیں۔ شراب تو ایک طرف‘ آپ سگریٹ بھی نہیں پیتے۔ کباب البتہ ضرور کھاتے ہوں گے‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا میری بات کا مطلب سمجھو‘ شراب اسلام میں حرام ہے‘ اس لئے شراب پینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن صحت کے لئے شراب شباب اور کباب لازم ہیں۔ میں نے پھر پوچھا کہ آپ شراب کا استعمال کس طرح کرتے ہیں کیونکہ آپ کے بقول وہ ضروری ہے۔ سید صاحب بولے شایدتم جانتے نہیں کہ شراب کیسے بنتی ہے۔ شروع میں یہ سرکے سے بنتی تھی۔ کسی بھی قسم کا سرکہ ہو فرمنٹیشن کے بعد ایک سٹیج پر جاکر سرکہ ہی شراب میں تبدیل ہوجاتا ہے گویا یہ شراب کی ابتدائی شکل ہے۔ میں شراب نہیں پیتا اور نہ ہی پی سکتا ہوں لیکن عمر بھر میں ہر کھانے کے بعد خالص دیسی سرکہ لے کر اس میں تھوڑا پانی ملاتا ہوں اور ہلکا سا نمک اور پھر اسے تھوڑا تھوڑا چھوٹے چھوٹے گھونٹ کی شکل میں کچھ دیر تک پیتا ہوں۔ میں نے کہا جناب کباب سے کیا مراد ہے۔ انہوں نے کہا جس چیز کو آپ کباب کہتے ہیں یہ دراصل کوفتہ ہے۔ کباب کا مطلب ایسا گوشت ہے جسے چکنائی اور پانی کے بغیر براہ راست آگ یا کوئلوں پر بھونا جائے۔ اسے آپ تکہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ پہلے تکہ کھایا جائے پھر سرکہ پیا جائے۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا بالکل ٹھیک جناب! اب کچھ روشنی شباب پر بھی ڈال دیں۔ کسی لڑکی سے بات کرتا ہوا کوئی لڑکا پکڑا جائے تو آپ وہ کھچائی کرتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔ یونیورسٹی کے سارے شعبوں میں لڑکے‘ لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں۔ آپ نے ہمارے لئے کلاس روموں میں پردے لگوا رکھے ہیں۔ سید صاحب مسکرائے اور بولے شباب کا مطلب ہے آپ جتنے بھی بوڑھے ہوگئے ہوں نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی صحبت میں رہنا۔ پھر انہوں نے کہا عقل کے اندھو! کبھی تم نے سوچا ہے کہ یورپ میں باس اپنی سیکرٹری یا ٹائپسٹ کی شکل میں لڑکی ہی کیوں ملازم رکھتا ہے حتیٰ کہ باس کے لئے ایسی کرسی بنائی جاتی ہے جس کا ایک بازو معمول کے مطابق ہوتا ہے اور دوسرا گدی نما چوڑا جس پر بیٹھ کر لڑکی نوٹس لکھتی ہے۔ میں نے کہا جناب! آپ کو تو ہم نے زندگی بھر ایسا کوئی کام کرتے نہیں دیکھا۔ سید صاحب بولے یہ ٹھیک ہے‘ اللہ نے مجھے ہمیشہ فسق و فجور سے محفوظ رکھا ہے۔ لیکن ذہنی اور جسمانی طور پر نوجوانوں کی صحبت میں دن کا کچھ حصہ گزارنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس سے آپ فریش ہوتے ہیں اور قنوطیت آپ پر غالب نہیں آتی۔ میں نے پھر جسارت کی اور کہا جناب آپ اس کا اہتمام کیسے کرتے ہیں۔ سید صاحب نے کہا آپ سب نوجوان ہو‘ ذہین ہو‘ پھر بھی میں جن لڑکوں اور لڑکیوں کا تھیسز اپنے پاس رکھتا ہوں اور جن کے لئے تھوڑا وقت روزانہ نکالنا پڑتا ہے ان کا انتخاب ہی جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند تروتازہ نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں میں سے کرتا ہوں۔ گھنٹے دوگھنٹے کی یہ گفت و شنید ضروری نہیں کہ سلیبس سے متعلق ہی ہو۔ آپ علم و ادب‘ شاعری اور زندگی کے کسی بھی شعبے کے بارے میں تبادلہ خیال کرسکتے ہیں۔ زیادہ عمر کے لوگوں کو لازماً اس طرح کے شباب کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر انہوں نے میرے کندھے سے ہاتھ اٹھا لیا اور کہا اب میں چلتا ہوں‘ گھر پر کچھ مہمانوں کو بلایا ہے‘ کچھ عرصہ گھر پر آرام کروں گا‘ پھر یونیورسٹی لائبریری کے سامنے انسائیکلوپیڈیا کا دفتر ہے ‘ جب دل چاہے آکر مجھ سے مل لیا کرنا۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی انتہائی صاف ستھری اور ہماری معاشرت اور مذہب کے مطابق تھی۔ اس کے باوجود ان کی یہ گفتگو مجھے ابھی تک یاد ہے۔ جس خوبصورتی سے انہوں نے مغرب کے رہن سہن کے انداز کی اچھی چیزوں کو اپنایا اور بری چیزوں کو چھوڑ دیا میرے لئے وہ آج بھی ایک روشن مینار کی طرح ہیں۔